• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ درویش جب بھی قلم اٹھائے کچھ لکھنے کا ارادہ باندھتا ہے تو اس کے سامنے جیالے ہوتے ہیں نہ متوالے، پاکستانی ہوتے ہیں نہ ہندی، مسلم ہوتے ہیں نہ غیر مسلم، سب انسان ہوتے ہیں۔ پھر یہ محض وقتی ابال نہیں ہوتا آنے والے سو سال نہیں ہوتے سو نسلیں ہوتی ہیں کیونکہ یہ نسلوں کا قرض ہے جو ہم نے ادا کرنا ہے۔ بچپن میں سنا تھا کہ گورا سو سال آگے کی سوچتا ہے، مسلمان جب سر پر پڑے اور سکھ بھائی جب پچاس یا سو سال گزر جائیں مگر آج یہ بات ادھورا سچ لگ رہی ہے اس لیے کہ جہاں ہمارے بڑے سکھ بھائیوں کو سمجھ رہے تھے الحمدللہ وہاں تو ہم خود کھڑے ہیں۔ ہمیں کئی تلخ حقیقتیں ہزارہا سال بعد بھی سمجھ نہیں آ رہی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کائنات کے بہت سے راز و حقائق پانچ ہزار سال بعد بھی سمجھ نہیں آ رہے ہیں اور ہم اڑیل گھوڑے کی طرح کھڑے ہنہنا رہے ہیں کہ زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد
واقعات جب وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں تو ہمارا طرزِ تخیل بالعموم غیر ذمہ دارانہ یا مفاد پرستانہ سے بڑھ کر ظالمانہ اور احمقانہ ہوتا ہے لیکن جب ایک یا نصف صدی گزر جاتی ہے اصلیتیں ہم پر وا ہونا شروع ہوتی ہیں تو پھر ہم رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم ذرا اپنی ہسٹری پر ایک نظر تو ڈالیں آج جو شخصیت متفقہ طور پر ہماری سب سے بڑی مظلوم ہستی ہے اس کے ساتھ اس کی زندگی میں کیا سلوک کیا گیا تھا؟ جبر کی قوت کے پروردہ اُس کے خلاف کہاں کہاں سے فتاویٰ نہیں لا رہے تھے اُسے باغی اور سلطنت کا دشمن گردان رہے تھے اُس کی نسبتوں کا احترام کیا گیا نہ اُس کے بچوں کو بخشا گیا۔ اس سے بھی آگے جھانکیے آج پوری دنیا متفقہ طور پر جسے مسیحا قرار دیتے نہیں تھکتی اُس کی زندگی میں اس ہستی کے ساتھ جبر کے گماشتوں نے کیا سلوک کیا؟ تب بھی ایک عدالت لگی تھی، فیصلہ اس نے بھی ظلم و بے انصافی پر مبنی دیا تھا لیکن کم از کم وہ عدالت اتنی باضمیر ضرور تھی کہ سرِعام وضو کر کے یہ تسلیم کیا کہ ہم جبر کی قوتوں کے دباؤ پر یہ سب کر رہے ہیں کیونکہ اُس وقت کی عدالت یہ شور مچا رہی تھی کہ ڈاکو کو چھوڑ دو مگر مسیحا کو لٹکا دو کہ یہ اپنی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے۔
اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں ابھی کل کی بات ہے ہماری ایک محترمہ وزیراعظم ہوا کرتی تھیں جبری قوت کے الہ کار کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات عائد کرتے ہوئے اُس کے خلاف سپریم فیصلے صادر کرتے رہے اور پھر جبری قوت کے پروان چڑھائے غنڈوں نے اُس کے ساتھ وہی کیا جو کبھی یروشلم میں ہو ا تھا لیکن اس کی دھول چونکہ ابھی تک پوری طرح بیٹھی نہیں اس لیے بہت سے ہوں گے جنہیں اس کی شفافیت ہنوز آخر الذکر سانحات کی طرح سجھائی نہیں دے رہی۔ وقت کے ساتھ حقائق واضح ہی نہیں ہوتے بلکہ بتدریج افسانوی تقدس حاصل کرتے ہوئے متھ کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اصل صاحبِ نظر وہ ہوتا ہے جو منفی پرو پیگنڈے کے طوفان میں بھی حقائق کی پرکھ کرتے ہوئے اُن کی تہہ تک اس وقت پہنچ جاتا ہے جب وہ وقوع پذیر ہونے جا رہے ہوتے ہیں۔ ہماری پاکستانی سوسائٹی میں آج بھی مولانا ابوالکلام آزادکو منفی طور پر پیش کیاجاتا ہے لیکن ان کی سوچ مفادپرستانہ سطح بینی پر مبنی ہر گز نہیں تھی۔ ہم تو ایسے بادشاہ لوگ ہیں کہ سر سید، اقبال اور قائد اعظم جیسی شخصیات کو بھی اپنے مخصوص مفادات کے زیر اثر یوں مسخ کر کے قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ پرو پیگنڈے کے طوفان میں عام آدمی کے لیے سچ اور جھوٹ میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک ڈکٹیٹر نے اپنی پست شعوری سطح یا ہنگامی مفادات کے تحت آئین کا تیا پانچہ کرتے ہوئے جو تجاوزات کیں افسوس ہم نے اُن کے مفاسد و مضمرات پوری طرح ملاحظہ کرنے کے باوجود آج بھی انہیں تقدس بخش رکھا ہے۔ جبری قوت کی دھونس میں اس کے چیلوں نے جو مقدس پروپیگنڈہ پھیلا رکھا ہے اس کے زیرِ اثر شعوری صلاحیت رکھنے والوں میں یہ یارا نہیں کہ اس تجاوز کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہمیں خوشی ہے کہ سینیٹ میں بیٹھے ملنگ نے اس کے خلاف لب کشائی کی ہے لیکن ساتھ ہی دوسرے ڈکٹیٹر نے یہ بیان جڑنے میں ذرا شرمندگی محسوس نہیں کی کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہوتی ہے، منتخب سویلین قیادتوں کی نسبت ڈکٹیٹروں نے اس ملک کو زیادہ فائدہ پہنچایا ہے ۔ہماری رائے میں اس ڈکٹیٹر کو چونکہ اس کے کیے کی سزا ابھی تک نہیں مل سکی اس لیے اسے مزید کھل کر یہ بھی کہہ دینا چاہیے تھا کہ جہالت شعور سے بہتر ہوتی ہے شعور آئے گا تو سوال جواب اور بحث مباحثے بھی آئیں گے استدلالی محاکمے اور تنقیدی جائزے بھی لیے جائیں گے سوچ ابھر ے گی تو فکر مندیاں بھی پیدا ہوں گی جبکہ جہالت میں موجیں ہی موجیں ہیں ۔جہالت رہے گی تو ڈکٹیٹروں کو زمین پر خدا کا سایہ تسلیم کیا جائے گا اس بات پر ہر طرف اتفاق و اتحاد نظر آئے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس قومی اتحاد و مفاد کے سامنے آئین کی کیا حیثیت ہے بلکہ ایسی ذہنیت کے نزدیک آئین کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آئین کوئی کباب ہے جسے کھایا جا سکے یہ تو چند صفحات کا کتابچہ ہے جسے جب چاہیں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔
سچ تو یہ ہے کہ وطن ِ عزیز میں 70 سال گزرنے کے باوجود کفر اور اسلام کی نہیں شعور اور جہالت کی جنگ ہو رہی ہے ایک طرف اجتماعی قومی شعور کے وہ نمائندے ہیں جو آئین، پارلیمنٹ، انسانی حقوق اور آزادیوں کے علمبردار ہیں جو سوسائٹی کے دبے ہوئے کمزور طبقات، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کو اپنی اصلی طاقت خیال کرتے ہیں دوسری طرف جبرکی قوتوں کے پروردہ مہرے جو کبھی عدل و انصاف کے نام پر عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہیں اور کبھی جہالت و آمریت کے گن گاتے ہیں۔ ان کی نظروں میں عوام یا عوامی و جمہوری اداروں کا نہیں صرف جبر کا احترام ہے ۔ یہ اپنی اقلیتوں یا اپنے ہمسایوں کا احترام یہ کیا جانیں اس مائنڈ سیٹ کے لوگ اپنی معزز خواتین کے احترام و تقدس سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں ۔ ان دنوں وطنِ عزیز میں ان لوگوں نے گھٹیا پروپیگنڈے کے زور سے اودھم مچارکھا ہے ان کی خصوصی پہچان یہ ہے کہ نواز شریف کے نام پر ان کے پیٹوں میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں حالانکہ اس شخص نے قومی اسمبلی میں 221ووٹ لے کر انہیں عوامی عدالت میں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔آئین اور جبر کے معرکے کی حقیقت اب کند ذہنوں پر بھی کھل جانی چاہئے۔

تازہ ترین