• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتجاج اور ہڑتال
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے، عدالتی نظام میں اصلاحات ناگزیر، ہڑتالی کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے، ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر ہر چیز گڈ مڈ ہے، اب ہنسی کا اعتبار رہا نہ آنسوئوں کا یقین، ہمارے قانونی نظام میں بھی ابہامات کافی ہیں، جن کو دور کرنا واقعتاً بے حد ضروری ہے، احتجاج اپنے اختلاف یا فریاد کا مہذب طریق کار ہے، اور اس کا حق ہر انسان کو ہے مگر احتجاج روگ بن جائے، سوگ ہو جائے، سراپا توڑ پھوڑ ہو جائے، انسانی جانیں دائو پر لگ جائیں تو اسے ہڑتال کہتے ہیں، ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال برپا ہے، یہ احتجاج نہیں، اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ دعا کریں ملک اتنا خوشحال ہو جائے، کہ آسانی سے ممکن ہو کہ ڈاکٹرز کیا ہر سرکاری نجی ملازم نہال ہو جائے اگر کسی کی جیب میں پیسہ ہی نہ ہو وہ کسی کو کیا دے گا، ہمارا نظام کرپٹ نہیں ہم کرپٹ ہیں، اور اس اجتماعی کرپشن اور اس سے بھی بڑھ کر کرپٹ ذہنیت نے 70سال سے ملکی وسائل، دولت، عوام کے ٹیکس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، اور نتیجہ کیا ہے کہ برکت اٹھ گئی، آنکھیں کیا خون بھی سفید ہو گیا، سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی خطرہ ہے نہ انتشار، اور اگر ہم خطرات و انتشار پیدا کرنے کا شوق رکھتے ہیں تو پھر وہی منیر نیازی کا اپنا اعتراف اور معاشرے کے جبر پر مبنی یہ فتویٰ نما شعر ہی بطور نوحۂ غریبانِ وطن پڑھا جا سکتا ہے،
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
٭٭٭٭
ٹریفک، پروٹوکول اور شہری
لیڈرز، حکمران، سیاستدان کس کس کو کس کس گناہ میں جوابدہ ہوں گے اس کی تفصیل میں جائے بغیر یہ کہنا اگرچہ بظاہر مذاق لگتا ہے مگر بروز قیامت سڑکوں کو بھی جوابدہ ہوں گے، کیونکہ ان کی آمدو رفت صرف آمدورفت نہیں ہوتی خلق خدا کے لئے سزائے سخت ہوتی ہے، حکومت نے کہا تھا کہ سڑکیں بنا دی ہیں اب پی ٹی آئی انہیں ماپے، اور اب خود پیمائش شروع کر دی ہے، پنجابی کے لفظ ’’سیاپا‘‘ جیسا پوری دنیا کی کسی زبان میں نہیں، کیونکہ وہاں سیاپا بہت کم ہوتا ہے، ہمارےہاں یہ اب اتنا عام ہے کہ پاکستان کے انسان گھر سے لے کر دفتر اور وہاں سے شہر کی سڑکوں تک قدم قدم کسی نہ کسی سیاپے سے دوچار ہیں، حالانکہ ہم تو انسان ہیں ہی ہمارے ’’بڑے لوگ‘‘ بھی حسنِ اتفاق سے انسان ہیں، سیاست کے لئے اگرچہ ضابطے، جگہیں سبھی کچھ موجود ہے لیکن یہ پھر بھی سڑکوں پر نکل آتی ہے، کیا شوق آوارگی ہے کہ ایک طویل زمانے سے جاری ہے، اور اب تو یہ حال ہے کہ جب عوام نے دیکھا مال روڈ جیسی سڑک پر جہاں چاہے کوئی تمبو لگا کر جلسہ رچا دے تو انہوں نے بھی پوری گلی میں ایک شادی کے لئے ساری گلی دونوں جانب سے بند کرنا شروع کر دیا، سیاسی پمپ اینڈ شو کا سارا دارومدار سڑکوں پر ہے، بہرحال سڑکوں نے ہمیں کاموں، منزلوں سے دور رکھنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا، اعتراضات تو بیشمار اور گوناگوں ذہن میں ابھرتے ہیں، مگر بھلا ہو الیکٹرونک میڈیا کا کہ جب کیمرہ آنکھوں دیکھا حال، تبصرے، تجزیئے سب کچھ چن چن کر بتا دیتا ہے، تو اب ہم اخبار جو وقوع کے بہت بعد اسے زخم تازہ بناتا ہے، اس میں لکھ کر کیا کریں گے، اس لئے اب ویسے تو کچھ کہنے سننے بتانے کی گنجائش نہیں رہی پھر کچھ نہ کچھ ہر روز لکھ دیتے ہیں، اگر صرف یہ پابندی لگا دی جائے کہ سڑک صرف غیر سیاسی غیر احتجاجی کاموں ہی کے لئے استعمال کی جائے گی، بصورت دیگر یہ جرم ہو گا سزا ہو گی تو شاید سڑکیں ہمیں معاف کر دیں۔
٭٭٭٭
شاید قسمت ہی خراب ہے!
اگر کوئی امیر ہو اور بے عقل ہو تو وہ کسی غریب کا دکھ، اس کی ضرورت کبھی نہیں سمجھ سکتا، یہ ہے وہ کوالیفیکیشن کہ جو بھی اس پر پورا اترے زمام اس کے ہاتھ آ جاتی ہے یا ہم عوام جو غریب بھی ہیں بے عقل بھی، بے عقل امراء کے ہاتھوں براستہ سیاست و حکومت مارے جاتے ہیں۔ امراء کو اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس بھی کہا جاتا ہے، اب تو ایک ہی حل ہے کہ ہم سب غریب ہو جائیں یا امیر، کوئی اور آپشن نہیں، غریب تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، اور بیس کروڑ ملا کر بھی ایک امیر نہیں بن پاتا اس لئے انسانوں کا ایک صدیوں پرانا بہانہ قسمت کا حوالہ دے کر چپ ہو جاتے ہیں اور چپ کرا دیتے ہیں کہ میری تو قسمت ہی خراب ہے، جب پاکستان بنا، تقسیم ہو گئی، تو 22لاکھ مسلمان ہجرت کرتے وقت مارے گئے تھے، وہ بھی سارے غریب ہی تھے، ہجرت ختم نہیں ہوئی اب غریب، امیر ملکوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں، بالعموم غریب، شریف بھی ہوتے ہیں، اس لئے بدمعاشوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے، سڑکوں پر بھی ہم ہر روز چھوٹی چھوٹی ہجرتیں کرتے ہیں بشرطیکہ سڑک کسی بڑے نے ہم چھوٹوں کے ذریعے بند نہ کرا دی ہو، ایک سرمایہ دار کے پاس چند لمحے بیٹھنے کا شرف ملا تو اس نے میرے پوچھنے پر بتایا ہم تو یہاں سے شاپنگ کرتے ہی نہیں، کھانے پینے کی اشیاء بھی باہر سے منگواتے ہیں، غریب لوگوں نے بھی گزارہ کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ غریب ہی کو شکار کرتے ہیں، ایک ہی شہر میں امراء کے علاقے الگ اور غریبوں کے غریب خانے الگ علاقوں میں واقع ہوتے ہیں اس لئے بجلی پانی صفائی اور معیاری اشیاء کی فراہمی بھی پوش علاقوں تک محدود رہتی ہے، اب تو اکثریتی آبادی یعنی غریب لوگوں کو عادت سی ہو گئی ہے، اس لئے وہ کچھ کہہ سکتے ہیں، نہ کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین