• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بھر میں بسنے والے تارکین وطن پاکستانی ملکی معیشت کے بڑھاوے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔پاکستان میں زلزلہ، سیلاب، دہشت گردی، مہنگائی، اغوا برائے تاوان، امن عامہ کی خراب صورت حال، بڑے بڑے ایکسیڈنٹ، اسپتالوں کی تعمیر، اسکول و کالجز کا اجرا، اجتماعی شادیاں، قرض اُتارو ملک سنوارو جیسی پالیسیاں، سیاسی جماعتوں کو ’’فنڈنگ‘‘ یا کسی بھی مد میں ملک کی تنظیمات کی امداد میں تارکین وطن ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔پاکستان میں بہن کی شادی یابھائی نے مکان بنانا ہو، ماں باپ نے اپنا قرض اُتارنا ہو، سسرال میں ’’ٹشن‘‘ دکھانے ہوں تو دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہی یاد کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات اور اُن میں حصہ لینے والے اُمیدوار بھی دوسرے ممالک میں مقیم اپنے دوست احباب اور محلے داروں کی جانب اُمید لگائے نظر آتے ہیں تاکہ ڈالرز یا یوروز اور پائونڈز کی صورت میں انہیں رقم بھیجی جائے تاکہ وہ ’’کھل ڈُھل‘‘ کر الیکشن لڑ سکیں۔ تارکین وطن اپنے اہل خانہ کو پاکستان پیسے بھیجتے ہیں تو اِس کے بدلے وہ چاہتے ہیں کہ وہاں کی ہر بات میںانہیں شریک کیا جائے، بلکہ اُن کی بات مانی جائے، اور ہوتا بھی ایسا ہی ہے کہ تارکین وطن ’’کماؤ پتروں‘‘ کی بات ہی مانی جاتی ہے، رشتہ داری کرنے سے لے کر الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے تک اوورسیز پاکستانیوں کے حکم کوسر آنکھوں پر رکھا جاتا ہے۔ دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے وطن میں اپنے عزیز و اقارب اور بہن بھائیوں کو اپنی محنت کی کمائی سے ’’امیروں‘‘ کی صف میں لاکھڑا کیا ہے، شریکوں کو نیچادکھانے کے لئے بڑے بڑے بنگلے اور کوٹھیاں بنائی جاتی ہیں، جن میں تارکین وطن پاکستانی خود نہیں رہتے پھر بھی انہیں دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے جب وہ بتاتے ہیں کہ فلاں گاؤں میں داخل ہوتے ہی جو کوٹھی سب سے نمایاں اور پہلے نظر آتی ہے وہ ہماری ہے۔ تارکین وطن پاکستانیوں نے دیار غیر میں کمائی کرنی سیکھ لی، جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی مقامی زبان پر عبور حاصل کر لیا، رہن سہن تک اُسی ملک کا کر لیا کہ جس میں اُن کے بچوں کا بہتر مستقبل موجود ہو، اپنے بچوں کو مقامی اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کر لیا، شلوار قمیض کی جگہ پینٹ کوٹ اور ٹی شرٹ نے لے لی، لیکن افسوس کہ اوور سیز پاکستانی جس جس ملک میں آباد ہیں وہاں انہوں نے بہت کچھ سیکھا مگر اتفاق و اتحاد اور ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر اپنے پیارے ملک پاکستان کی نمائندگی کرنا نہیں سیکھ سکے۔ پاکستانیوں میںآپس کے تنازعات اور اختلاف رائے اِس قدر زیادہ ہے کہ جس کا اثر ہماری نئی نسل پر ہو رہا ہے، مقامی کمیونٹی ہماری ایسی حرکات، نا اتفاقی اور ناچاقی پرہمارا تمسخر اُڑاتی ہے، اِس کے باوجود ہم آپس میں ایک ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ اتفاق و اتحاد کی محرومی اورآپس کے تنازعات کی ذمہ دار پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا نیٹ ورک دوسرے ممالک میں موجود ہے۔مسلم لیگ ن، مسلم لیگ قاف، پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف کے علاوہ دوسری تمام سیاسی جماعتوں کے دھڑے اور گروپ بندیاں دیار غیر میں پاکستانی کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا نہیں ہونے دیتی جو لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کا اللہ ایک ہے، نبیﷺ ایک ہیں، کعبہ ایک ہے، پاکستان بنانے والے محمد علی جناح ؒ ایک تھے پھر پاکستانی سپوت دوسرے ممالک میں ایک پلیٹ فارم پر کیوں اکھٹے نہیں ہوتے۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو دیار غیر میں پروان چڑھنے والی ہماری نئی نسل ہم سے پوچھتی ہے، نئی نسل اپنے بزرگوں سے کہتی ہے کہ جس ہم وطن سے آپ ناراض ہیں ہم بھی اُس کے بچوں کیساتھ اپنا میل جول نہیں بڑھائیں گے، اوورسیز پاکستانیوں کو یہ سوچ کر نئی نسل کے اِس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پاکستان کے قومی دِن جن میں یوم پاکستان، یوم آزادی پاکستان، یوم دفاع، علامہ اقبال ؒ ڈے، قائداعظمؒ ڈے یوم یکجہتی کشمیر پر بھی پاکستانی گروپس اپنے اپنے پروگرام ترتیب دیتے ہیں صرف اِس لئےکہ مد مقابل گروپ کو بتایا جا سکے کہ ہم نے جو پروگرام ترتیب دیا تھا اُس میں کمیونٹی کی زیادہ تعداد شریک ہوئی تھی۔اپنے پروگرامز کو کامیاب بنانے اور اُسے چار چاند لگانے کے لئے پاکستان سے شوبز، سیاسی، بیورو کریسی، جوڈیشری، پارلیمنٹ اور دوسرے شعبوں سے وابستگان کو بُلایا جاتا ہے تاکہ لوگ اُس شخصیت کو دیکھنے اور اُس سے ملنے کے لئے پروگرام میں آکر تعداد میں اضافہ کریں۔تحریک انصاف اِن ممالک میں اپنا پروگرام ترتیب دے تو وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے اِس قدر خلاف بولتے ہیں کہ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔اور جب مسلم لیگ ن یا کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنا پروگرام کرتی ہے تو وہاں مقررین اپنا غبار تحریک انصاف کے خلاف نکالتے ہیں جس سے دیار غیر میں بھائی چارے کی فضا قائم نہیں رہ پاتی۔پاکستانی گروپس اپنے بچوں تک کو منع کر دیتے ہیں کہ وہ فلاں گروپ کے پروگرام میں نہیں جائیں گے، یہ روک ٹوک اور متنازع زندگی ہمارے بچوں کو ایک دوسرے سے دُور کر رہی ہے، ہم اپنی زندگی کی کئی بہاریں دیکھ چکے ہیں، ہماری زندگی کے دیئے اب ہوا کے سامنے رکھے ہوئے ہیں کوئی بھی جھونکا انہیں بجھا دے گا، ہمارے بچوں نے ابھی لمبی زندگی گزارنی ہے، ہمیں اپنے بچوں کے لئے ایک ہونا ہوگا، ایک پلیٹ فارم سے قومی اور مذہبی دنوں کا انعقاد یقینی بنانا ہوگا،پاکستانی بچوں کو دیار غیر میں تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا رہن سہن، اور ہماری ثقافت کن خطوط پر کام کرتی ہے، ہمیں یہاں کیا کرنا ہے اور کس چیز سے بچنا ہے، لیکن صد حیف کہ ہم اپنے بچوں کو یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ فلاں بندے سے ہماری بول چال اِس لئے بند ہے کہ وہ دوسرے گروپ کا ممبر ہے۔ہمیں اپنی سیاسی، سماجی اور معاشرتی اخلاقیات کا درس یاد کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم جلد ایسا نہیں کریں گے تو ہماری آنے والی نسلیں بُری طرح بکھر جائیں گی اور دیار غیر میں ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔مقامی کمیونٹی ہمارے ساتھ کئے جانے والے تعاون ہماری نا اتفاقی کی وجہ سے ہاتھ کھینچ لے گی، جس دن ایسا ہوا وہ دن ہمارے یوم زوال کی شروعات ہو گا۔

تازہ ترین