• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے وقت میں جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد ملک میں سول ملٹری تعلقات میں تنائو کا تاثر پھیل رہا ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات میں یہ طے ہونا کہ ملک کی سلامتی اور ترقی کے لئے سب نے مل کر آگے بڑھنا ہے اس تاثر کو زائل کرنے کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ملاقات کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات پر بات کرنا اب ایک فیشن بن گیا ہے۔ سول اور ملٹری میں کوئی تفریق نہیں۔ سب ایک ہی سائیڈ پر بیٹھتے ہیں۔ جب سویلین حکومت مضبوط ہوتی ہے تو ملٹری بھی مضبوط ہوتی ہے۔ اسی طرح ملٹری کی مضبوطی سویلین حکومت کی مضبوطی ہے۔ سب کا ایک ہی مقصد ہے اس لئے ہم سب نے ان شاء اللہ مل کر آگے چلنا ہے اور ملک کو ترقی دینی ہے، یہ ملک ہم سب کا ہے اور ملک کی ترقی میں سب کی ترقی ہے۔ آرمی چیف نے گزشتہ دنوں کور کمانڈرز کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج آئین و قانون کی بالادستی کے لئے ملکی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہے گی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات میں بھی انہوں نے اس عزم کو دہرایا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے ملاقات میں جو باتیں کہیں وہ بالکل درست ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ آئین کے مطابق معاملات کو آگے چلنا چاہئے ہم نے اکٹھے مل کر آگے چلنا ہے۔ کوئی ایسا تاثر نہیں کہ ہم فریق ہیں، اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ملک کے تین مقتدر ترین ادارے ہیں۔ حکومت کا انتخاب مقننہ کرتی ہے جسے عوام منتخب کرتے ہیں۔ اس لئے حکومت عوام اور مقننہ کو جواب دہ ہوتی ہے۔ انتظامیہ حکومت کے تابع ہوتی ہے۔ پھر ملک کے داخلی معاملات کو چلانے کے لئے بہت سے ادارے ہیں۔ دفاع فوج کے سپرد ہے اور یہ ملک کا اہم ترین ادارہ ہے جو منتخب حکومت کے احکامات کا پابند ہے۔ تاہم ملکی دفاع اور سلامتی کے معاملات میں اس کاپیشہ ورانہ نقطۂ نظر اہمیت رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد برسر اقتدار آنے والے سیاستدان مفادات کے ٹکرائو کے باعث باہمی آویزشوں کا شکار رہے جس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت مضبوط نہ ہو سکی اور بعض طالع آزمائوں کو اسے بار بار پٹڑی سے اتارنے کا موقع ملتا رہا۔2008 میں جمہوریت بحال ہوئی تو ایک پارٹی کی حکومت کو پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملا۔ اب دوسری پارٹی کی حکومت یہ مدت پوری کرنے جا رہی ہے لیکن ملک کی70 سالہ تاریخ میں ماضی کی طرح ان دونوں ادوار میں بھی کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ اگرچہ دونوں بار وزرائے اعظم عدالتی احکامات کے تحت فارغ ہوئے لیکن بار بار فوجی مداخلت کے عادی حلقے اس کے پیچھے بھی ایسے ہی غیر مرئی ہاتھ کار فرما ہونے کا تاثر پھیلا رہے ہیں جو معروضی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، نہ ہی یہ قومی یکجہتی کے مفاد میں ہے۔ مسلح افواج اس وقت ملک کو درپیش دہشت گردی کے خطرناک چیلنج اور مشرقی و مغربی سرحدوں پر منڈلانے والے خطرات کا سامنا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ وہ سرحدوں کے دفاع کے علاوہ داخلی امن و امان کی ذمہ داری بھی نبھا رہی ہیں۔ پچھلے تقریباً ایک عشرے میں ہر آنے والے آرمی چیف نے جمہوریت کے قائم و دائم رہنے اور پھلنے پھولنے کی وکالت کی اور اپنے اس عزم پر قائم رہا۔ اب یہ سیاستدانوں اور مقننہ کا کام ہے کہ جمہوریت اور جمہوری روایات کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں سیاسی رسہ کشی، ایک دوسرے کی کردار کشی اور اشتعال انگیزی کا موجودہ ماحول اگرچہ زیادہ سازگار نظر نہیں آتا لیکن امید کی جانی چاہئے کہ بالآخر عوام کے مفاد میں عقل سلیم غالب آئے گی۔ سیاسی جماعتیں مہذب ملکوں کے جمہوری تجربوں سے سبق حاصل کریں گی، جمہوری قدروں کو فروغ دیں گی، اپنے اندر اگر کوئی خامی دیکھتی ہیں تو اسے دور کریں گی اور پاکستان کو ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کی صف میں شامل کرنے کے لیے اپنا راہبرانہ کردار ادا کریں گی۔

تازہ ترین