• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان پر 764برس مسلمانوں کی حکمرانی رہی، مسلمان حکمرانوں نے ہندوئوں کے خاتمے کے لئے کچھ نہ کیا بلکہ انہیں، ان کی عبادت گاہوں سمیت زندگی گزارنے دی۔ ہندوئوں سے حسن سلوک کیا مگر افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ ہندوئوں کو آزاد ہوئے ستر برس ہوئے ہیں، ان ستر برسوں میں ہندوئوں نے ہندوستان میں مسلمانوں سمیت سکھوں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے، ان کا جینا حرام کر رکھا ہے، خاص طور پر کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان ستر سالوں میں بھارت کی انتہا پسندانہ سوچ نے سکھوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے احترام کا پاس بھی نہ کیا۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان نے پورے خطے کو یرغمال بنانے کا مشن بھی جاری رکھا، اسے کسی طور بھی مضبوط مسلمان ملک منظور نہیں۔ اس نے ستر سالوں سے پاکستان دشمنی اپنا رکھی ہے، وہ کل بھی پاکستان کا دشمن تھا اور آج بھی دشمن ہے۔ اُس نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ذریعے علیحدگی کی تحریک چلائی، اس نے مشرقی پاکستان سے چند غدار پیدا کئے اور پھر سارا کام ان غداروں کے ذریعے کیا، آج وہ علیحدہ ہونے والا ملک بنگلہ دیش بھارت کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے بعد بھارت کی نظر میں موجودہ پاکستان کھٹکنے لگا، یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اس دوران بھٹو صاحب کا شروع کردہ ایٹمی پروگرام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ پاکستان نے ایوبی دور میں کئی ڈیم اور بیراج بنائے تھے اس کے بعد ہندوستان نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ایسے افراد تلاش کرنا شروع کر دیئے جن کا کام صرف ڈیم نہ بننے دینا تھا۔ یہ کھیل اب بھی جاری ہے۔ بھارت نے مکتی باہنی کی طرز پر کراچی اور بلوچستان میں کھیل کھیلنے کی کوشش کی لیکن یہ کھیل پاکستان کے ریاستی اداروں نے ناکام بنا دیا۔ بھارت پہلے پاکستان کی چھوٹی سیاسی جماعتوں پر سرمایہ کاری کرتا تھا پھر اُس نے بڑی سیاسی پارٹیوں کو گھیرا۔ ان جماعتوں کے ذمہ ایک کام تھا کہ پاکستان کو لوٹو، معیشت کو کمزور کرو اور پاکستان کے ریاستی اداروں کو بدنام کرو، رسوا کرو۔ حالیہ سالوں میں کھیل کی ساری چالوں کو اجیت کمار دوول ترتیب دیتا رہا۔ جی ہاں! وہی اجیت کمار دوول جو ایک اہم پاکستانی سیاستدان کے گھر پر کھانے کھاتا ہے۔ میں یہاں ان نو شوگر ملوں کا تذکرہ تو نہیں کروں گا جن کا ذکر جے آئی ٹی نے والیم ٹین میں بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ وہ ملیں کس کی ہیں، کہاں ہیں، میں ان باتوں کا بھی ذکر نہیں کروں گا بس اتنا کہوں گا کہ آج پھر سے پاکستان کے اعلیٰ ترین ادارے ہدفِ تنقید بنے ہوئے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستانی قوم کے طرزعمل کو سلام کہ اُس نے ایسے لوگوں کو اپنے عمل سے مسترد کر دیا ہے۔ ایسے لوگوں کی شکست دیوار پہ لکھی ہوئی ہے۔ مکر و فریب کے یہ کاریگر جمہوریت کا نام لیتے ہیں، ان سے سادہ سا سوال ہے کہ کیا جمہوریت ملکی اداروں کو بدنام کرنے کا نام ہے؟ کیا اس بات کا نام ہے کہ اپنی عدلیہ اور افواج کو بدنام کر کے رکھ دو۔ یہ ایجنڈا پاکستان سے پیار کرنے والوں کا تو نہیں ہو سکتا۔
حالیہ دنوں میں پاکستانی قوم نے جس طرح اداروں کے خلاف تحریک کو مسترد کیا ہے اس پر لیڈر صاحبان مایوس ہو گئے ہیں۔ ان کے جلوس میں محض چند ہزار افراد کی شرکت اس بات کی گواہ ہے کہ لوگوں نے طاقت اور دولت کے زور کو مسترد کر دیا۔ جب قدرت کسی کے خلاف ہو جائے تو دنیاوی محبتیں عزت میں اضافہ نہیں کر سکتیں۔
میاں نواز شریف نے پچھلے کچھ دنوں میں اپنی نااہلی کو کچھ اداروں کا ’’قصور‘‘ قرار دینے کی کوشش کی۔ قانون کی عدالت سے ہارنے کے بعد وہ بڑے پروگرام ترتیب دے کر عوام کی عدالت میں گئے مگر انہیں پہلے ہی دن بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنی احتجاجی ریلی کو کامیاب بنانے کے لئے تمام تر حکومتی وسائل استعمال کئے، نو اگست کو انہیں ایک ہفتے کی کوششوں کے بعد صبح نو ساڑھے نوبجے پنجاب ہائوس سے نکلنا تھا مگر وہ ڈھائی تین گھنٹے لوگوں کی آمد کا انتظار کرتے رہے۔ انہوں نے سرکاری ملازمین کی حاضری کو یقینی بنانے کے لئے بدھ کا انتخاب بھی کیا مگر راولپنڈی، اسلام آباد میں کارپوریشنوں کے ملازم کتنے تھے۔ اس دوران آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی لوگ آ گئے لیکن پھر بھی اتنے لوگ نہ ہو سکے کہ میاں صاحب باہر نکلنے کا رسک لے سکتے۔ بالآخر چند بڑے قافلے صوبہ خیبر پختونخوا سے آئے تو میاں صاحب تین گھنٹے کی تاخیر سے نکل پڑے۔ لوگوں کی تعداد دیکھ کر مجھے شہر اقتدار کی بے وفائی بہت یاد آئی اور پھر ایک مصرع ذہن میں آیا کہ بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے مایوس کن تعداد نے میاں صاحب کو راولپنڈی ہی میں روک لیا، راولپنڈی اسلام آباد سے لوگوں کے نہ نکلنے کی بڑی وجہ مسلم لیگیوں کے آپس کے اختلاف بھی تھے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کیا اور فیصلے کا احترام نہ کرنے والوں کو مسترد کر دیا۔ چوہدری نثار علی خان منظر سے غائب رہے۔ راولپنڈی میں حنیف عباسی اور چوہدری تنویر کے اختلافات بے بسی کا رونا روتے رہے۔ رات گئے میاں نواز شریف نے راولپنڈی کی مقامی قیادت کوملنے سے انکار کر دیا، جو پڑائو جہلم میں ہونا تھا وہ چار و ناچار پنڈی میں کرنا پڑا۔ پنڈی سیاستدانوں کے لئے کیسا شہر ہے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔ آپ فی الحال عدیم ہاشمی کے چند اشعار پڑھیے
پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اس طرح
آئی ہے کام یوں بھی ضرورت کبھی کبھی
ہوتے ہیں قربتوں میں بھی محشر کئی بپا
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی
دوری کبھی کبھی بڑی اچھی لگی عدیمؔ
اچھی نہیں لگی ہمیں قربت کبھی کبھی
نوٹ:میاں صاحب کو جن لوگوں نے بھی یہ بتایا تھا کہ پاکستان میں لوگ ترکی کی طرح نکل آئیں گے، ان کی عقل پر ماتم کرنا چاہئے۔ ویسے ایک ماتم تو ریلی کر رہی ہے۔

تازہ ترین