• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرد بالادست ہے اور عورت کمزور، اس بات کے حق میں اور خلاف بولنے والوں کی زبانیں کسی حال تھکنے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ جھگڑا سدا سے جاری ہے اور کون جانے کب تک چلے گا۔دونوں طرف کے وکالت کرنے والے بڑے بڑے وزنی دلائل لے کر میدان میں اترتے ہیں اور ایسی ایسی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ایک بار تو ان کی بات پر یقین آنے لگتا ہے۔مرد زیادہ توانا ہے، زیادہ ذہین ہے، بڑے فیصلے کرنے کا اہل ہے، بھاری ذمہ داری اٹھا سکتا ہے اور اسے اس ڈھب سے کسی اور نے نہیں، قدرت نے بنایا ہے۔ اس قسم کی دلیلیں اکثر سننے میں آتی ہیں۔ دوسری جانب عورتوں کے حق میں بولنے والوں کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زیادہ تر عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ ان کی آواز کمزور ہوتی ہے اسی باعث ان کے دلائل بھی مردوں کی طرح وزنی نہیں ہوتے۔ وہ کہتی ہیں کہ عورتوں کی ذہانت پر شک کرنے والے خود اپنی ذہانت کا معائنہ کرائیں۔ عورتو ں میں قوتِ فیصلہ کی کمی نہیں، کتنی ہی عورتوں نے پورے پورے ملکوں کا نظام چلایا ہے۔ ان کی توانائی پر سوال اٹھانے والے بھول جاتے ہیں کہ عورتوں نے بارہا میدانِ جنگ میں قائدانہ صلاحیتوں کا بے مثال مظاہرہ کیا ہے۔ وہ کتنی ذمہ دار ہوتی ہیں، کوئی ا ن کے گھر کا چلتا ہوا نظام دیکھے۔ اپنی آنے والی نسلوں کو کیسے اٹھایا جائے، یہ فیصلہ عورت ہی کرتی ہے۔ گھر میں ہر طرح کے دکھ سکھ سے نمٹنا کوئی عورتوں سے سیکھے۔ پاس پڑوس کی خبر رکھنا، علاقے کے حالات پر نگاہ رکھنا، شوہر کو باخبر رکھنا اور آنے والے حالات سے نمٹنے کے لئے پورے گھرانے کو تیار کرنا، یہ مشکل فرض عورتیں ہی سرانجام دیتی ہیں۔ پھر جو فرض وہ حیرت انگیز طور پر صبر و تحمل سے انجام دیتی ہیں اس کا تو کہنا ہی کیا۔ شوہر کے جلال اور غصہ غضبی سے دو دو ہاتھ کرنے کا سب سے مشکل مرحلہ ان ہی کو سرانجام دینا پڑتا ہے۔ یہاں آکر وہ تنہا ہو جاتی ہیں۔ معاشرہ دوسری جانب یوں دیکھنے لگتا ہے جیسے اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ پاس پڑوس میں بھی لوگ اپنے منہ سی لیتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جان کر انجان بن جاتے ہیں، تیزی سے چلتی ہوئی عدالتیں یوں سست پڑجاتی ہیں جیسے جج کو اپنے ریٹائر ہونے کا انتظار ہو اور اس میں ابھی سترہ اٹھارہ برس باقی ہوں۔ جو واحد بات عورت کے حق میں نہیں جاتی وہ اس کا مظلوم ہونا ہے۔ اس کی آواز کا کمزور ہونا ہے اور عزت کی خاطر اپنا لہجہ نیچا رکھنا ہے۔ ایسا کیوں ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے، قدرت؟ معاشرہ؟ یا خود عورت؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ہوئے بھی دل دکھتا ہے۔ ہم نے ایسے تنازع میں مرد کو ہزار بار بے رحم اور بیدرد بنتے دیکھا ہے، کبھی عورت کو ظالم کا روپ دھارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کبھی مرد کو نہیں دیکھا کہ نکاح نامے کا پرزہ اٹھائے در در جارہا ہو اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی روداد سنا کر ہمدردی کی بھیک مانگ رہا ہو۔
ان ہی دنوں برطانیہ میں پیدا ہونے والے ایک پاکستانی باکسر نے اپنی پاکستانی بیوی کو تین لفظوں کی ای میل بھیجی۔ تین لفظ آپ جان ہی گئے ہوں گے: طلاک، طلاک، طلاک۔ اس پر ان صاحب کا قصہ یاد آگیا جنہوں نے طیش کے عالم میں بیوی کے سامنے تین بار یہی کہا۔ مگر اگلے ہی روز پچھتائے اور روتے دھوتے ایک مولوی صاحب کے پاس گئے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ طلاق کے جھگڑے کھڑے کھڑے طے کردیتے ہیں۔ مولانا نے ان کی بات توجہ سے سنی اور کہا کہ مجھے بھی طلاق طلاق کہہ کر سناؤ۔ شوہر نے بڑی سعادت مندی سے سنا دیا:طلاک، طلاک، طلاک۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر لفظ طلاق صاف ادا نہیں کرسکتے اور اسے طلاک کہتے ہو تو تمہاری دی ہوئی یہ طلاق خلاف ِشرع ہے۔ جاؤ، منکوحہ کے لئے موگرے کے پھول لے جاؤ۔
بات ذرا دور نکل گئی۔ حالات ِحاضرہ پر نگاہ رکھنے والوں کے لئے مولوی حضرات کو مثال بنانا مناسب نہیں۔ ابھی حال ہی کی بات ہے، برطانیہ کے مشہور عالم نشریاتی ادار ے بی بی سی میں شور اٹھا کہ ادار ے کی تمام بڑی اسامیاں مردوں کے پاس ہیں۔ خواتین کو نچلے درجے سے اوپر نہیں جانے دیا جاتا اور یہ کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اس پر بڑی بحث چھڑی اور اعدادو شمار کا جانا پہچانا ہتھیار استعمال کر کے مخالفین نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اورلگتا یہ ہے کہ یہ ماضی کی طرح اپنے منطقی انجام کو شاید ہی پہنچے۔ پھر تازہ مثال دنیا کے آئی ٹی کے بڑے ادارے گوگل کی ہے جہاں ادارے کے ایک سرکردہ ملازم نے بحث چھیڑ دی کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان امتیاز برتا جاتا ہے،ادارے میں ٹیکنیکل اور انتظامی شعبوں، دونوں میں خواتین کم اور مرد زیادہ ہیں جو سراسر زیادتی اور نا انصافی ہے۔ اس پر گوگل کے مالک سُندر پِچائی نے اس ملازم کو نوکری سے نکال دیا۔انہوں نے کہا کہ بات ایک حد تک ٹھیک ہے لیکن جارحانہ بھی ہے۔ اب یہ جھگڑا چلے گا اور مقدمہ لڑنے کے لئے سندر جی کے پاس دھن دولت کی کمی نہیں۔مطلب یہ کہ خواتین کے حق میں آواز اٹھانے والے اب اپنی خیر منائیں۔
ایک اور منظر اس موقع پر ذہن میں ابھرتا ہے۔ وہ ہے سیاست کے میدان میں خواتین کو آگے بڑھانا۔ شروع شروع میں ایسا کوئی چلن نہ تھا۔خواتین سیاست میں حصہ لیتی تھیں، اسمبلیوں میں جاتی تھیں، دو ایک وزارتیں بھی لے لیتی تھیں، غیر ملکی دوروں پر جانے والے وفود میں شامل ہوتی تھیں۔ بس اس سے آگے ان کے لئے وہ ریکھا کھنچی تھی جس کے آگے پاؤ ں دھرنا ممنوع تھا۔پھر ہماری آپ کی زندگی میں وہ بڑا واقعہ ہوا جس میں ایک خاتون کو سیاست کے میدان میں اتارا گیا۔ وہ تھیں محترمہ فاطمہ جناح جن کی باوقار شخصیت کا ایک دنیا دم بھرتی تھی۔وہ ایوب خان کے مقابلے پر کھڑی ہوئیں۔ انہیں پورے مشرقی پاکستان کی حمایت حاصل تھی اور کراچی کی ساری مہاجر بستیوں میں ہر گھر پر ان کا انتخابی نشان یعنی لالٹین آویزاں کردی گئی تھی۔مجھے وہ جلسہ یاد ہے جس میں بنیادی جمہورت کے رائے دہندگان سے سارے امید وار خطاب کر رہے تھے۔اس موقع پر ایوب خان کے خلاف آوازیں سننے میں آئیں جس پر انہوں نے کہا کہ ’’مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘‘۔ اور جب محترمہ خطاب کرچکیں اور حاضرین سے کہا گیا کہ وہ محترمہ سے سوال پوچھیں اس پر سارے مجمع نے بیک آواز نعرہ لگایا کہ ہمیں محترمہ پر پورا اعتماد ہے اور ان سے کچھ نہیں پوچھنا ہے۔ اس موقع پر حاضرین کو جمہوریت کا یہ سبق پڑھانا پڑا کہ سوال پوچھ کر آپ اپنی رہنما کو موقع دیں گے کہ وہ اپنے منشور کی وضاحت کریں۔ یہ منظر مغربی پاکستان کے سارے ہی شہروں میں دیکھنے میں آیا۔ پھر انتخابات ہوئے۔ محترمہ ہار گئیں۔ بنیادی جمہوریت کے الیکٹورل کالج کے میزان میں مرد کا پلّہ بھاری تھاسو بھاری ہی رہا۔ غرض یہ کہ یہ سلسلہ جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔ جس کی تفصیل میں جاکر وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے، بہتر ہے یہاں ہونٹ سی لئے جائیں۔

تازہ ترین