• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رونقاں ای رونقاں
نواز شریف، الیکشن سے پہلے پاور شو کا آغاز، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے، 12منٹ کا فاصلہ 12گھنٹے میں طے، اس ملک میں اور کچھ ہو نہ ہو سیاسی رونقیں ایک سماں باندھ دیتی ہیں، چینلز مصروف، عوام کچھ سیاسی میلے میں کچھ گھروں میں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے انجوائے کرتے ہیں۔کھانے چائے مشروبات اور تبصرے تجزئیے الغرض ایک جوش ، جذبہ، جنون کی کیفیت طاری رہتی ہے، نواز شریف کا گھر جانا (ن)لیگ کو نیا ولولہ دے گیا، تادم تحریر نواز ریلی رستے میں ہے، کارکن برساتی پروانوں کی طرح سابق وزیر اعظم پر گر گر کر نئی زندگی نیا جوش پاتے رہے، بی ایم ڈبلیو کا بونٹ دریا ر بن گیا کارکن آتے چوم کرچلے جاتے۔عوام کی بھی دو قسمیں ہیں ایک غیر سیاسی دوسرے سیاسی کارکن عوام، بہرحال نواز شریف نے جاتے جاتے اپنی پارٹی کو زندہ کردیا اور بتادیا کہ راکھ کے ڈھیر میں شعلہ بھی ہے چنگاری بھی۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں مگر سیاسی لیڈران کی پرستش کی حد تک یہی جمہوریت کا’’حسن‘‘ ہے اور70سال سے خوشی کیلئے ترسے لوگ سیاسی موسم کی بہار میں اپنے اپنے لیڈر کے گرد جمع ہو کر خوب دل خوش کرتے اور اندر کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ گوکہ یہ لوگ رہنما کو جانتے نہیں لیکن ہر رہبر کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں، ایسے مواقع دلچسپ ہوتے ہیں ان سےلطف اندوز ہونا چاہئے۔ خواہ مخواہ ان کا پوسٹمارٹم کرنے میں وقت ضائع کرنا بھی حماقت ہے۔ یہ ملک اسی طرح ہی چلتا رہے گا، اسکا ایک اپنا زعفرانی مزاج ہے، اسے کوئی نہیں مٹا سکتا، باقی رہے گا اور ایک ایسی ترقی کرتا رہے گا۔ جوہماری کسر نفسی کے باعث دکھائی نہیں دے گی۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
کنٹینر سے کنٹینر تک!
سیاسی غلطیاں پکڑنے والے بھی سیاسی غلطی کرتے ہیں کہ سیاست کو شریعت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ نواز شریف نے کنٹینر کی مخالفت کی، اس لئے کہ تب وہ وزیر اعظم ہائوس پر سوار تھے اور ان کے مخالفین کنٹینر پر۔ انہیں بھلا کنٹینر کی کیا ضرورت تھی۔ اب وزیر اعظم ہائوس کی چھت سے اتر آئے ہیں تو کنٹینر پر چڑھنا ان کا حق ہے۔ یہ دنیا نظریہ اضافیت پر چل رہی ہے، ایک چیز ایک وقت میں جائز نہیں ہوتی اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ جائز ہوجاتی ہے اور ہمارا خیال ہے یہی کنٹینر کا بہترین استعمال ہے کہ جب مضر سیاست ہو تو اس کے نزدیک نہ جائو اور جب وہ تحفظ بن جائے ، بم پروف بن جائے، ہر سہولت سے آراستہ ہو، پروانے دیوانے اس کے گرد رقص کررہے ہوں، اس کی دیواروں کو عقیدت مند بوسہ دیں تو اس پر ایک کیا کئی وزیراعظم ہائوس قربان کئے جاسکتے ہیں، آخر کنٹینر میں کوئی ایسی بات ہے کہ جو کنٹینر سے اتر کر نواز شریف کے دل میں گھر کرگئی۔ بلا ضرورت وہ کنٹینر پر نہیں چڑھے، نظریہ ضرورت کے تحت چڑھے، پھر اس پر اعتراض کیسا۔ ہم اپنی عام زندگی میں کسی بھی بے تکلف دوست سے اکثر کہتے ہیں کی حال اے بادشاہو! اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ بادشاہ ہے۔ اسی طرح اگر نون لیگ والے سبکدوش وزیر اعظم کو اب بھی وزیر اعظم کہتے ہیں تو یہ بھی کی حال اے بادشاہو کےمترادف ہے۔ بات ہے سمجھنے کی، یہ کہنا کہ وہ وزیر اعظم نہیں رہے اور انہیں پارٹی والے وزیر اعظم کہتے ہیں، ایک مرتبہ پرانے لاہو ر میں ایک شخص نے کہا جج کو بلائو ہم ڈر گئے کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی کہ اس نے جج بلالیا بعد میں پتا چلا کہ وہ اس نوجوان کا بھائی تھا جسے پیار سے جج کہتے تھے، اس طرح وہ جج تو نہیں بن جاتا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
یہی جمہوریت کا حسن ہے!
ایک زمانے میں یہ گیت بہت مشہور ہوا کہ’’دم مارو دم، مٹ جائیں غم‘‘، تو آج دم تو کسی میں نہیں رہا سب ٹھنڈے پڑگئے ہیں، اس لئے اب یہ کہنے میں حرج نہیں’’چل مارو چل خوش کرو دل‘‘ اب تو یہ روزمرہ بن گیا ہے کہ چل مارو یار! یعنی فکر نہ کرو اور شیخ سعدی نے تو اس سے بہت آگے کی قیمتی بات کی تھی کہ’’مترس از بلائے کہ شب درمیاں‘‘ (اس بلا سے مت ڈر جس کے آنے میں ایک رات باقی ہے) ہم بے وقت کی سنجیدگی طاری کرنے کے ماہر ہوگئے ہیں جس سے بڑا نقصان ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس بات پر بھی غور کرلینا چاہئے تھا کہ خورشید شاہ صاحب نے بہت پہلے میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ عوام میں جائیں، مگر وہ تب نہ گئے اب گئے جب فیصلہ آچکا۔ اب خورشید شاہ ہر گفتگو میں کہتے پھرتے ہیں بہت دیر کی مہرباں(عوام)میں آتے آتے۔ ایک بات بڑے کام کی ہے کہ ہونی کو کوئی روک نہیں سکتا اب جو ہونا تھا ہوگیا، اب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہی کو دیکھ لیں وہ اگرچہ آٹھ ماہے وزیر اعظم ہیں مگر خوش اتنے کہ جیسے انہوں نے کبھی وزیر اعظم ہائوس سے گھر جانا ہی نہیں۔ اسی طرح چوہدری نثار علی ن لیگ سے نہیں گئے نواز شریف سے گئے، اس لئے یہ بھی چنداں پریشانی والی بات نہیں۔ میاں صاحب کو گھر جاتے جاتے جو محبت عزت اور رونق حیات مل رہی ہے اسے وہ کبھی بھلا نہ پائیں گے اور سچ کہا سعد رفیق نے کہ وہ جس کے کاندھے پر ہاتھ رکھیں گے وہ ہی وزیراعظم ہوگا۔ جیسے’’ہُما‘‘جس کے سر پر بیٹھ جائے وہی بادشاہ ہوتا ہے ،بادشاہ سے بڑھ کر تو بادشاہ گر ہوتا ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
آڑ اور دراڑ
٭...نواز شریف، عوام ووٹ دیں، کوئی چلتا کردے وعدہ کرو اپنے مینڈیٹ کا احترام کرائوگے۔
عوام کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ لاسکتے ہیں واپس نہیں لاسکتے۔
٭...تہمینہ درانی، پارٹی میں کوئی دراڑ نہیں، میرا ماضی گواہ ہے میں آزادانہ رائے دیتی ہوں۔
بس اس قدر احتیاط کریں کہ آزادانہ رائے دراڑ نہ ڈال دے۔
٭...اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریلی رکوانے کی دونوں درخواستیں خارج کردیں۔
اس کا مطلب ہے عدلیہ انصاف کررہی ہے اور نواز شریف اپنے چاہنے والوں سے انصاف کررہے ہیں۔ باقی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عوام کا پیسہ ریلی پر خرچ ہورہا ہے تو ہونے دیں کیا عوام نے پیسہ ساتھ لے کر جانا ہے؟ اچھا ہے کہ اسے اپنے محبوب قائد پر خرچ کردیں۔
٭...شیر شاہ سوری نے جو جی ٹی روڈ بنوائی تھی، آج اس کے پیسے پورے ہوگئے،
آخر بادشاہ سڑکیں بادشاہوں کے لئے چھوڑ جاتے ہیں کہ شاہ کا وارث شاہ ہوتا ہے۔

تازہ ترین