• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے کسی ملک میں بھی اگر عدالتی فیصلے تسلیم نہ کئے جائیں تو جنگل کا قانون رائج ہو جائے گا تاہم جب فیصلے سیاسی معاملات کے بارے میں ہوتے ہیں تو سیاستدان جن کے یہ خلاف ہوتے ہیں وہ انہیں قبول تو کرتے ہیں مگر ان سے ہمیشہ اختلاف کرتے رہتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ عدالتی فیصلوں پر مختلف ممالک میں مختلف انداز میں تنقید بھی ہوتی ہے اور بعض جگہ تو ان کے بارے میں بہت ہی سخت باتیں کی جاتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے فیصلے کو آج تک پیپلزپارٹی نے نہیں مانا اور ہمیشہ اسے عدالتی قتل قراردیا۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک وزیراعظم کو ایک انتہائی معمولی بنیاد پر عدالت عظمیٰ سے الگ کر دیا گیا ہے ۔ نہ صرف نوازشریف بلکہ ان کے تمام حمایتی ٗ کارکن اور اتحادی جماعتیں اس فیصلے کو مسترد کرتی ہیں ۔تاہم فیصلے کے فوراً بعد وزیراعظم نے اس پر عملدرآمد کر دیا اورانہوں نے اپنا منصب چھوڑ دیا۔ان سے اس فیصلے سے اختلاف کے حق کو نہیں چھینا جاسکتا۔اسی اختلاف کے اظہار کے لئے ہی وہ اسلام آباد سے لاہور بذریعہ جی ٹی روڈایک جلوس کی شکل میں جارہے ہیں ۔ انہیں اپنے ووٹرز کو بتانا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور انہیں بغیر کسی بڑی وجہ کے بہت بڑی سزا دی گئی ہے۔ اپنے شو کے پہلے دن وہ اس میں کافی حد تک کامیاب ہوئے اور ان کے کارکن ان سے متفق ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔اگر نوازشریف ایسا نہ کرتے تو ان کے پاس یہ آپشن تھاکہ وہ خاموشی سے گھر بیٹھ جاتے جو کہ ظاہر ہے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما کے لئے ممکن نہیں لہٰذاوہ اپنی کہانی لوگوں کو سنا رہے ہیں اور انہیں بتا رہے ہیں کہ ملک ان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کتنی تیزی سے ترقی کر رہاتھا جس رفتار کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ ان کے سفر کا پہلا پڑائو راولپنڈی میں تھا جہاں انہوں نے بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا جس میں تمام شرکاء مقامی تھے اورلوگ بسوں یا ویگنوں میں بھر کردوسرے شہروں سے نہیں لائے گئے تھے ۔یہ قومی اسمبلی کے حلقوں 55اور 56کے لوگ تھے جہاں سے ن لیگ کے امیدوار2013کے عام انتخابات میں ہار گئے تھے ۔ عوام کی اتنی بڑی شرکت کو دیکھ کر نوازشریف یقیناً کافی مطمئن ہوئے کہ ان کے حمایتی ان کی بات سننے کے لئے بے تاب ہیں۔
بہت سخت سیکورٹی خدشات اور مختلف وارننگز کے باوجود نوازشریف اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے کہ انہوں نے اپنے ’’گھر‘‘ بذریعہ جی ٹی روڈ ہی جانا ہے اس سے ان کے مخالفین کو بڑی تکلیف ہوئی ہے اور انہیں ڈر ہے کہ سابق وزیراعظم اس سفر کے دوران بڑی بھرپور مہم چلا لیں گے جس سے ان کے مخالفین کے اپنی مقبولیت کے بارے میں بلند بانگ دعوے زمین بوس ہوجائیں گے ۔خصوصاً چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بڑے کرب میں ہیں کہ یہ سفر ان کی سیاست کو بہت نقصان پہنچائے گا لہٰذا انہوں نے نہ صرف شور مچایا بلکہ ہر طرح سے عدالتوں کے ذریعے کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح نوازشریف کو اس سفر سے روکا جاسکے۔خود تو وہ پچھلے چار سال سے سڑکوں پر ہیں اور ہر وقت احتجاج کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی احتجاجی تحریک کو مزید بھر پور کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں مگر انہیں سابق وزیراعظم کی یہ بات بھی ناپسند ہے کہ وہ اپنی نااہلی کی کہانی اپنے حمایتیوں کے پاس جا کر سنا سکیں۔اس ڈر سے کہ نوازشریف کے موجودہ سفر نے ان کی سیاست کو مزید مقبولیت بخش رہی ہے اور عمران خان کو نقصان پہنچا رہی ہے چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ بھی جی ٹی روڈ پر بہت بڑا قافلہ لے کر کسی وقت بھی چل سکتے ہیں۔
نوازشریف کے پہلے دن کے شو میں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا کیونکہ اس کا مقصد نہ تو پرائیویٹ اور نہ ہی حکومتی املاک کو نقصان پہنچانا تھا اور نہ ہی کسی ادارے یا قومی تنصیبات پر حملہ کرنا تھا ،نہ ہی پولیس پر تشدد کرنا تھا اور نہ ہی وزیراعظم ہائوس ،پارلیمنٹ بلڈنگ اور پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کرنا تھا ۔ مگر جب عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے 2014میں لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کئے اور پھر ان کو ڈی چوک میں ایک لمبے عرصے کے لئے دھرنے میں تبدیل کر دیا تو ان کے مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے ان کا صرف یہی مطمح نظر تھا کہ نوازشریف حکومت کو گرانا ہے اور اس مشن میں اگر قومی اداروں ،املاک اورپولیس پر حملے کرنے پڑتے ہیں تو کئے جائیں گے اور انہوں نے واقعی ایسے حملے کئے ۔پاکستان کی تاریخ میں آج تک اس قسم کا تشدد اور سینہ زوری کسی سیاسی جماعت نے نہیں کی جتنی کہ عمران خان اور طاہر القادری نے کئی مہینے جاری رکھی اور حکومت بے بسی کی تصویربنی رہی کیونکہ یہ دونوں حضرات کچھ طاقتور قوتوں کی ایما پر یہ سب کچھ کر رہے تھے ۔ ان کو نہ تو کوئی سیکورٹی خدشات لاحق تھے اور نہ ہی سویلین حکومت کا کوئی ڈر تھا۔اس کے برخلاف نوازشریف کو سخت ترین سیکورٹی خدشات ہیں اور جب تک وہ لاہور کاسفر جاری رکھیں گے یہ موجود رہیں گے بلکہ اس کے بعد بھی ان میں کمی نہیں آئے گی۔کیا وجہ ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے لئے تو سب کچھ اچھا تھا مگر نوازشریف کے لئے خطرات ہی خطرات ؟نوازشریف کا لاہور کا سفر کوئی عمران خان کے اسلام آباد کے لاک ڈائون جیسا نہیں ہے جس کا مقصد وفاقی حکومت کو مفلوج کرنا تھا۔ یقیناً چیئرمین پی ٹی آئی یہ سب کچھ اپنی سیاست کے لئے دوسروں کے اشارے پر کررہے تھے ۔نوازشریف کے جی ٹی روڈ مشن کے مقاصد کچھ اور ہیں اور عمران خان کے دھرنوں اور لاک ڈائون کے کچھ اور تھے ۔
نوازشریف کے خلاف وہی کھیل جو ان کے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا زور وشور سے جاری ہے جس کا مقصد صرف اور صرف انہیں سیاست سے نکالنا ہے ۔ اس کے لئے نااہلی ایک راستہ تھا اب نیب کے ریفرنسوں کے ذریعے ان کی اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کی گرفتاری اور سزائیں اسی سلسلے کی کڑیاں ہوں گی۔سابق وزیراعظم کو ان سب سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ان کی موجودہ مہم کا مقصد بھی یہی ہے ۔وہ عوام میں مقبولیت کے بل بوتے پر اپنے مخالفین کو چت کرنا چاہتے ہیں تاہم یہ راستہ کانٹوں سے بھرا پڑا ہے اور کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا جی ٹی روڈ کا سفرعوام کی شمولیت کی وجہ سے جتنی زیادہ مقبولیت حاصل کرے گا اتنے ہی ان کے لئے خطرات بڑھتے جائیں گے کیونکہ کسی بھی سیاستدان کی بہت زیادہ مقبولیت ان کے مخالفین کو ایک نظر نہیں بھاتی۔ اسی طرح کی سازشیں نوازشریف کے نوٹس میں لا کر انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کر لیںمگر وہ ماننے والے تھوڑے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کہتے ہیں گھر جائو اور اب میں گھر جارہاہوں تو کہتے ہیں کہ جی ٹی روڈ سے نہ جائو یہ عجیب منطق ہے۔

تازہ ترین