• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے افغانستان کو تختۂ مشق بنایا۔ پاکستان کو دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔اب تک ہمارے 60ہزار سے زائد سول اور فوجی جوان اس دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور100ارب ڈالر کا خطیر نقصان بھی ہمیں برداشت کرنا پڑا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسی پر یوٹرن لینے سے پاکستان میں بدترین دہشتگردی کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ نائن الیون کے واقعہ سے قبل پاکستان میں خود کش حملوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ملکی حالات بہت بہتر تھے اور امن وامان کی صورتحال بھی تسلی بخش تھی۔ سابق ڈکٹیٹرجنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ڈالروں کے عوض ڈاکٹر عافیہ سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکیوں کے حوالے کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سے دہشتگردی کی ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اب واپسی کی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ جنرل پرویز مشرف ایک قومی مجرم ہے اور ان کے جرائم کی چارج شیٹ بہت طویل ہے۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف کی بہت سی باتوں سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کایہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ آئین کو دوبار توڑنے والے جنرل پرویز مشرف کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ ویسے تو نوازشریف اور پرویز مشرف میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ماضی میںدونوں بھارت نوازی میں ایک دوسرے سے بازی لینے کی کوشش کرتے رہے۔ پرویز مشرف اور نواز شریف یکطرفہ طور پر بھارت سے دوستی چاہتے ہیں اور دونوں نے کشمیر ایشو کو نظر انداز کیے رکھا۔ پاکستانی قوم حسب روایات اس بار بھی 14اگست کو اپنا 70واں یوم آزادی جوش خروش سے منائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان تو آزاد کرالیا تھا۔ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ سے کون آزاد کرائے گا؟ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے درست مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے لئے بھی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اگر عائشہ گلالئی کے لئے کمیٹی بن سکتی ہے تو پھر ایک اہم قومی مسئلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے پارلیمانی کمیٹی کیوں نہیں بن سکتی؟ پوری قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی چاہتی ہے۔ 14سال کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے۔ اب حکومت کو اس اہم اور حساس قومی معاملے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاناماکیس کی صورت میں اس وقت نااہلیت کے جس وبال کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی ناراضی کا سبب ہے۔ ان کے دور اقتدار میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن نہ ہوئی۔ حالانکہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے 100دنوں میں قوم کی بیٹی کو واپس لائیں گے۔ اسی طرح عاشق رسولؐ ممتاز قادری کو پھانسی دینے کا فیصلہ بھی ان کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ ان کے اس فیصلے سے پاکستانی عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوا۔ امریکی دبائو پر ممتاز قادری کو پھانسی دینے سے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو عوامی سطح پر سخت پشیمانی اورہزیمت کا سامناکرنا پڑا۔ وقت اور حالات یہ بات ثابت کررہے ہیں کہ عافیہ پاکستانی حکمرانوں کو پرکھنے کی کسوٹی بن چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ اور عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا موجودہ صورتحال پر میڈیا سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں نظام انصاف انتہائی بری حالت میں ہے۔ عدالتوں میں ایک عام شہری کیلئے انصاف حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ اپنی تمام تر معصومیت اور مظلومیت کے باجود گزشتہ 14سالوں سے انصاف سے محروم ہے۔ ہم عافیہ کی وطن واپسی کیلئے وفاق اور دو بڑے صوبوں کی ہائی کورٹس میں گئے مگر حکومت نے اسلام آباد، لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی پاسداری نہیں کی۔ احتساب کے اس سارے عمل کو انصاف کے ساتھ اس طرح آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ انتقامی کارروائی کا تصور قائم نہ ہوسکے۔ اگر منتخب حکومتیں عوام کو وعدوں کے مطابق انصاف اور بنیادی حقوق فراہم کریں تو ان کی برطرفی اور نااہلی کا جوازپیدا ہی نہ ہوگا۔ اب سیاسی رہنمائوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہئے کہ ظلم کی سیاست کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اس سال کے آغازمیں جب صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان کے ایک دستخط سے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی ممکن بن سکتی تھی اور عالمی برادری میں ملک کا وقاربلند ہوسکتا تھا تو میاں محمد نواز شریف کو کس نے ایک دستخط کرنے کی سعادت سے محروم رہنے کا مشورہ دیا تھا یا جبراً روکا تھا؟ ہر پاکستانی شہری چاہتا ہے کہ ملک میں قانون سے بالاتر کوئی نہ ہو۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قانون کی عملداری کی بات کر کے ایک عام پاکستانی کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے۔ کیونکہ اگر قانون کی عملداری ہوتی تو 2003 میں اس وقت کے حکمرانوں اور سرکاری حکام کو عافیہ کو اس کے تین معصوم بچوں سمیت اغوا کرکے امریکیوں کے حوالے کرنے کی ہرگز جرات نہ ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود عافیہ کو اس کے 3کمسن بچوں سمیت سرکاری حکام نے کس قانون کے تحت امریکہ کے حوالے کیا تھا؟14 سال ہوگئے عافیہ پر کوئی جرم ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ جس من گھڑت الزام پر عافیہ کو 86 سال کی ظالمانہ سزا سنائی گئی اس 86سال کو امریکی و عالمی دانشور، انسانی حقوق کے علمبردار اور ماہرین قانون Bullshit 86 Years قرار دے کر مسترد کرچکے ہیں لیکن پاکستانی حکام کی غیرت ابھی تک نہیں جاگ سکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عافیہ کی رہائی کے کئی سنہری موقع عطا کئے مگرحکمرانوں اور ارباب اختیار نے سب ضائع کر دیئے۔ اب کوئی موقع ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کا تحفظ اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ حکمرانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ قانون کی عملداری سے ہی ملک میں گڈگورنس قائم ہو سکے گی اور حکمران جھوٹے دعوئوں کی بنیاد پر حکومت نہیں کرسکیں گے۔5 سال کے مختصر عرصہ میں دوسرے منتخب وزیراعظم کا نااہل ہوجانا قومی المیہ ہے۔کیاہمارے ارباب بست و کشاد میں اخلاقی جرات ہے کہ وہ اس بات کا جواب دیں کہ جب قوم انہیں مینڈیٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتی ہے تو وہ عام آدمی کو سستا اور فوری انصاف اور ان کے مسائل کیوں حل نہیں کرتے ؟
میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کا پرامن اور مہذب انداز میں وزیراعظم منتخب ہونا خوش آئند ہے، ملک میں سیاسی عمل کو اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ ن کی سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔انہیں اپنے قائد نواز شریف کا عافیہ کو100 دن میں واپس لانے کا 4 سال پرانا وعدہ تو یاد ہی ہوگا۔ پوری قوم عافیہ کی جلد وطن واپسی چاہتی ہے۔ عافیہ کی واپسی پوری قوم اور امت مسلمہ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی، اللہ تعالیٰ نے شاہد خاقان عباسی کو بطور وزیر اعظم پاکستان کاموقع دیا ہے شاید یہ نیک کام ان کے ہاتھوں سے ہوجائے۔

تازہ ترین