• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلیں ہیں تو کٹ ہی جائے گا سفر
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے: آپ نے مجھے اسلام آباد بھیجا انہوں نے مجھے گھر بھیج دیا، یہ قول چونکہ میاں صاحب کا ہے، ہم اسے سمجھ کر بھی نہیں سمجھے، ان کی اپنی کیفیت بھی ممکن ہے ہمارے جیسی ہو، مگر انسان جب بھی کسی واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتا ہے تو یہ اس کا امتحان ہوتا ہے، کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ایسے میں انسان اپنے حواس کو مجتمع رکھے، اور بھلے بھرے بازار میں آزادانہ گھومے لیکن اس کا ہاتھ کسی کے منہ پر نہ جا پڑے، گویا آزادی بھی محدود ہوتی ہے اور اگر حد سے گزر جائے تو غلامی کے احاطے میں داخل ہو جاتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان جس سلیقے طریقے سے بنایا، منوایا وہ میدان سیاست میں قدم قدم چلتے ہوئے ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، لیڈر کی ایک بڑی صفت ہے کہ وہ برداشت کے ذریعے بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے، اور صرف اپنی انا کے لئے نہیں اپنے ماحول کے لئے سوچتا ہے، ہمیں بھی اور خود میاں صاحب کو بھی ’’آپ‘‘ اور ’’انہوں‘‘ کا پتہ ہے، اکثر غلط اور صحیح سمجھ کر خاموشی اختیار کرنا بڑی گویائی کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اس قوت و جذب کو ضائع نہیں کرنا چاہئے، یہ بات افسوس ناک ہے کہ اس ملک میں سیاست حکومت ریاست اور حتیٰ کہ آئین و جمہوریت مفاد کی جنگ بن کر رہ گئے ہیں، اور مفادات کی دوڑ میں مخلص افراد ضائع ہو جاتے ہیں، اور موقع پرستوں کا ہجوم گھیرے میں لے لیتا ہے، ملک و قوم کے معاملات چلانا،بٹیروں کی لڑائی نہیں ہوتی، جو شخص آپ کے روبرو کھڑا ہو کر آپ کی تعریف کرے اسے اپنے ضمیر کے ای سی ایل میں ڈال دیں، قلم کی نوک دو ٹوک بات کر دیتی ہے، اس لئے ہماری گزارش ہے کہ تدبر اور غور و فکر کو ترجیح دی جائے اور ایک مثبت سوچ کے ذریعے محفوظ طرز عمل اختیار کیا جائے۔
٭٭٭٭
دردِ کمر سے دردِ جگر تک
چوہدری نثار کہتے ہیں:کمر میں درد نہیں، اداروں کو اپنے خلاف کرنے والا طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہئے، استاد امام دین نے کہا تھا؎
میرے گوڈے میں درد جگر مام دینا
اور وہ آج ہوتے تو ساتھ یہ بھی کہتے؎
ان کے جگر میں ہے دردِ کمر مام دینا
ہمارے ہاں پورے ملک میں اندھی عقیدت نے آئین، جمہوریت، سیاست کو بھی اندھا بنا دیا ہے، کسی کے پیش نظر یہ نہیں کہ حق سچ کیا ہے، ہر ایک نے کسی نہ کسی کو اپنا مرشدِ کامل سمجھ رکھا ہے، اور اگرچہ کلمہ پڑھے صدیاں بیت گئیں لیکن اب بھی بت پرستی کہیں نہ کہیں سے جھلک دکھا جاتی ہے، علامہ اقبالؒ نے پنجابی مسلمان کے عنوان سے ایک نظم کہی تھی اس کا ایک شعر؎
ہو کھیل مریدی کا تو ہوتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہمارے ہاں بے لگام عقیدت نے ظلم کے گھوڑے دوڑائے، اپنے ہی ہاتھوں گڑھا گھود کر اس میں شوق ذوق سے گرتے رہے، وہ جذب و کیف اور مستی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کے لئے ہونا چاہئے تھی وہ بت کدہ دل میں رکھے بتوں کی نذر کر دی اور آج یہی وجہ ہے کہ ہماری اخلاقیات بے راہ ہو گئی، بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے بجائے اللہ اللہ کرتے بندوں کی بندگی کرنے لگا، اب کہئے مساجد میں جانے اور جائے نماز پر سجدہ ریز ہوں گے تو کیا یہ صورت نہ ہو گی؎
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
توحید ایک ایسا تصور ہے جسے عملی شکل دی جائے تو انسان، انسان کا استحصال نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭
یہ آرزو تھی!
فرض کیا پاکستان، قائد و اقبال کا پاکستان بن گیا ہے اقوام کی پہلی صف میں کھڑا ہو چکا ہے، غریب کو اپنی غربت چبھتی نہیں، اسے اتنا مل گیا ہے کہ کمتری کا احساس بھی نہ رہا، اور امیر کی امیری سے کسی کو جلن نہیں، امانت دیانت صداقت عام ہے، معاشرہ امن کا گہوارہ ہے، پیٹ بھر گئے ہیں ہنسی باہر آ گئی ہے، آنسو صرف میک اپ کے لئے بہائے جاتے ہیں، کہ ان سے آنکھ نشیلی ہو جاتی ہے، تعلیم بھی عام ہے، آبادی کنٹرول میں ہے، گرانی کے ساتھ ہی فرد کی آمدن بڑھ جاتی ہے اور قیمتیں طبیعت پر گراں نہیں گزرتیں، ہر شخص پر زندگی کا خمار چڑھا ہوا ہے، ضروریات و حاجات کی خاطر کوئی ذلیل و خوار نہیں ہوتا، اکا دکا کوئی کسی کو بُرا کہتا ہے تو فضا میں بدبو پھیل جاتی ہے، جبری نیکی کا نام و نشان نہیں، رزق حلال ہے، دل میں چور نہیں، لوگ لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر شور نہیں، اپنی زندگی محفوظ بنانے کے لئے دوسروں کی زندگی کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے، ایک امر مسکان ہونٹوں سے چپکی ہوئی، صفائی ہے ستھرائی ہے، پاکیٔ داماں کی حکایت بھی کوئی نہیں سناتا، کبھی کبھی کچھ ناگوار بھی برپا ہوتا ہے مگر جلد قابو پا لیا جاتا ہے، کوئی گناہ کرنے پر مجبور بھی نہیں، پاکستان واقعتاً پاک ہے، دولت، صلاحیت کا راستہ نہیں روک سکتی، لوگ 5دن کام کرتے ہیں دو دن کے لئے دل کو دماغ سے الگ کر کے چِل کرتے ہیں، ہر شخص کچھ کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ کہیں وہ ریاست کا قانون تو ہاتھ میں نہیں لے رہا، عورت آدھی رات کو نکلے تو مرد کی طرح محفوظ ہے، کہیں کوئی گداگر نظر نہیں آ رہا، عندلیب شیراز نے کہا تھا؎
بہ فراغ دل نگاہے گاہے بہ ماہروئے
بہ ازاں کہ چتر شاہی ہمہ روز ہائے وہوئے
(فارغ دل کے ساتھ کسی مہ رو کو ایک نظر دیکھ لینا بادشاہت اور شاہی پروٹوکول کے شور و غوغا سے کہیں اچھا ہے)
٭٭٭٭
چار باتیں
....Oمریم نواز:جہلم میں آئی لو یو نواز شریف کی گونج
اب تو آپ خوش ہیں!
....Oسعد رفیق کی سرگوشی پر 120کی سپیڈ
اگر سعد رفیق اپنی سرگوشی کو مارکیٹ کر دیں تو گاڑیاں سرگوشی سے چلیں۔
....Oوزیر داخلہ کا پروٹوکول کے بغیر فضائی سفر،
سارے وزراء یہی طرز عمل اختیار کر لیں تو ان کی عزت میں اضافہ ہو گا۔

تازہ ترین