• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناشتہ بس مناسب سا تھا۔ روایتی سا، اور لوگوں کی تعداد بھی مناسب تھی۔ ہر شعبہ زندگی کے لوگ اخبارات کا مطالعہ کررہے تھے۔ میں اصل میں عمر سیف کو دیکھنے آیا تھا۔ عمر سیف کی انٹرنیٹ کی دنیا میں بڑی دھوم ہے۔ آج کل وہ پاکستان بھر میں جدت کی حامل ٹیکنالوجی کی مدد سے نظام کو آسان بنانے کے منصوبے پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ میں آج تک عمر سیف سے نہیں ملا مگر ان کانیٹ ورک ان کی سوچ اور فکر کی مکمل تشہیر کرتا نظر آتا ہے اور سب سے کمال بات ان کی ٹیم ہے جو ان کی سوچ اور فکر کو عمل میں ڈھالتی نظر آتی ہے۔وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے بھی قریب نظر آتے ہیں۔ عمر سیف اس وقت پنجاب سرکارمیں انتہائی اہم عہدہ پر کام کر رہے ہیں اس وقت تک پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں نظام حکومت کو آسان بنانے اور عوم کو آسانیاں فراہم کرنے کے لئے کچھ لوگ عمر سیف کے ساتھ مل کر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی راہ میں رکاوٹیں بہت ہیں مگر وہ کام جاری رکھنا جانتے ہیں اور اس ہی سوچ نے مجھے ان سے ملنے پر اکسایا۔
میں اپنے ادارے اور جنگ گروپ کے جناب فراز جواد کا بھی ممنون تشکر ہوں اس ناشتہ کے موقع کے میزبان جنگ گروپ کے سرمد علی اور ہمارے ادارتی صفحہ کے ساتھی سکندر حمید لودھی تھے۔ شکر ہے ہمارے خصوصی مہمان عمر سیف وقت مقررہ کی نسبت سے کچھ وقت پر ہی آگئے اور ان کی آمد کے ساتھ ہی ناشتے کا اعلان کردیا گیا۔ اس صبح بھی موسم میں کافی حدت تھی ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ نو بجے سے پہلے ہی آنا ہے نہر کنارے جس عمارت میں ناشتے کا اہتمام کیا گیا تھا وہاں پارکنگ کی کافی گنجائش تھی۔ شروع میں تو دیکھا کہ ہال میں تقریباً تمام میزوں پر لوگ مصروف مطالعہ اور سراپا انتظار میں نظر آئے۔ حیرانی کی بات تھی کہ بہت کم لوگ موبائل فون پر مصروف نظر آئے اور پھر اس ہال میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ جب عمر سیف کی آمد کا اعلان ہوا تو سب لوگ ناشتے سے سجی میزوں کی طر ف کوچ کرنے لگے۔ ناشتے کی میز پر حلوہ پوری کے ساتھ ساتھ چائے، دودھ اور جوس کا انتظام تھا لوگ خاصی دیر تک ناشتے میں مصروف رہے اور میں دیکھ رہا تھا کہ عمر سیف ناشتے سے زیادہ ارد گرد کے لوگوں کا جائزہ لے رہے ہیں اور اندازہ کر رہے تھے کہ لوگ ان سے کیا جاننا چاہتے ہیں۔
اب کافی لوگ اپنی اپنی میزوں پر واپس آچکے تھے۔ میری میز پر چھ لوگ تھے جو ایک دوسرے سے اجنبی تھے ان میں تین خواتین تھیں۔ میرے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے ان سے اجنبیت ختم کرنے کے لئے پوچھ ہی لیا کہ ان کی اس ناشتہ میں دلچسپی کی کیا وجہ ہے۔ ان کا نام علی سید تھا اور ان کے بقول وہ سیلف میڈ کامیاب بزنس مین ہیں اور اپنی فرم ہے جوطالب علموں کو بیرون ملک تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لئے مشاورت فراہم کرتی ہے اور جو لوگ کسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہوں ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ خاصی دلچسپ شخصیت تھی۔ مگر اس بات کا جواب تشنہ ہی رہا کہ وہ عمر سیف کے حوالہ سے کیا دلچسپی رکھتے ہیں۔ ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ سٹیج سج گیا۔ عمر سیف کے میزبان جناب سرمد علی نے ان کاتعارف کرایا اور انہوں نے عمر سیف کو نہیں بلکہ ڈاکٹر عمر سیف کو مدعو کر رکھا ہے۔ڈاکٹر عمر سیف خوش گوار گفتگو کے حامل اور خوبصورت لباس میں کافی تیز طرار نظر آئے۔ حیرانی والی بات یہ تھی ڈاکٹر عمر سیف اردو، انگریزی دونوں کمال کی بولتے نظر آئے۔
ڈاکٹر عمر سیف آج کل حکومت پنجاب کے مشیر اور وزیر کے درجہ کے خصوصی اختیارات کے حامل عہدیدار ہیں انہوں نے اپنے خطا ب میں پنجاب بھر میں جاری اپنے منصوبوں کا جامع تعارف کرایا اور اپنی ٹیم کے لوگوں کا ذکر بھی کیا۔ ویسے ہمارے ہاں تو ترقی اور کامیابی کاسارا سہرا عموماً فرد واحد کے حوالے سے نظر آتا ہے مگر ڈاکٹر عمر سیف بانٹ کر کام کرنے کے کپتان نظر آئے۔ ان کی گفتگو میں جذبہ اور ہمت نظر آئی۔ وہ عمومی حالات کے برخلاف پرُامید نظر آئے۔ وہ پنجاب کے خادم اعلیٰ شہباز شریف کے اسیر بھی نظر آئے۔ ہمارے کامیاب وزیر اعلیٰ زیادہ دیر تک کسی فرد کو برداشت نہیں کرتے مگر انہوں نے ڈاکٹر عمر سیف کو سنا بھی اور ان کی سفارشات کو اپنی ترقی میں حصہ دار بھی بنایا۔ سنا ہے جناب خادم اعلیٰ خادموں کو شاباش نہیںدیتے مگر کبھی کبھار نوازشات سے ضرور نوازتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر عمر سیف کے کن نظریات نے ان کو متاثر کیا۔
ڈاکٹر عمر سیف بتا رہے تھے کہ انہوں نے کبھی بھی بڑی تنخواہ کا نہیں سوچا۔ اب تو ہمارے ملک کے دیگر صوبے بھی ترقی کے سفر میں حصہ دار بننے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ گزشتہ رات بھی سندھ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار سندھ میں ان کی مشاورت اور مدد کے لئے مدعو کرنے آئے ہوئے تھے اور اب خیبر پختونخوا کی سرکار کئی منصوبوں میں ان کی سوچ اور فکر سے متاثر ہے۔ میں حیران تھا کہ کپتان عمران خان یا صوبے کے وزیر اعلیٰ خٹک صاحب کس طرح سے پنجاب کے عہدیدار سے متاثر ہیں۔ پھر مجھے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے جب میں ملک سے باہر تھا اور میرا بیٹا میرا ہمسفر تھا وہ ایک عرصہ تک لاہور کے ایچیسن کالج کا طالب علم رہا۔ وہ ان کامیاب طالب علموں کا ذکر رہا تھا جو اس کے ساتھ کسی زمانہ میں دوست احباب تھے اور اس کی اپنی بھی یہ خواہش ہے کہ وہ واپس وطن جا کر اپنے دیس کے لئے کچھ کر سکے۔ میرے میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ اس کو بتا سکتا کہ ایسا سوچنا تو بہت اچھا ہے مگر عملی طور پر بہت مشکل ہے۔ مگر اب جب ڈاکٹر عمر سیف کے سفر کو دیکھتا ہوں جو خودبھی ایچی سونین ہے اور کامیاب ہے تو اوروں کے لئے ایسا کرنا ممکن ہے۔ بات خیبرپختونخوا کے تناظر میں تھی۔ کپتان عمران خان اور وزیر اعلیٰ خٹک بھی ڈاکٹر عمر سیف کی طرح ایچی سن کالج کے طالب علم رہے ہیں اس لئے ان کی توقع مناسب ہے اور ڈاکٹر عمر سیف نے ثابت بھی کردیا ہے ترقی کے لئے ادارے اور تعلیم بہت ہی ضروری ہوتے ہیں۔
میری میز پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی طالبہ نے بھی سوا ل کیا۔ وہ بھی میری طرح راوین تھی، سوال امتحانات کے لئے نظام کے حوالہ سے تھا۔ ڈاکٹر عمر سیف نے یقین دلایا کہ وہ اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں اور مطلوبہ نتائج میں کچھ وقت لگے گا۔ میں اب کی بار حیران تھا کہ مطلوبہ نتائج کا معیار کیا ہے اور سیاسی طور پر مطلوبہ نتائج کیا جمہوریت کے لئے اچھے ہو سکتے ہیں یا جمہوریت کا سفر مطلوبہ نتائج کی وجہ سے سیراب ہی لگے گا۔میں ڈاکٹر عمر سیف سے ملنا چاہتا تھا اور ان کوبتانا چاہتا تھا کہ ان کا کام اور سوچ اچھی ہے۔ مگر معاملات اس طرح نظر نہیں آتے۔موجودہ نظام لپیٹا جا رہا ہے مگر متبادل نظام بہت ہی پرُپیچ ہے اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی اضافہ ہے اور اس ہی وجہ سے لوگ حوصلہ ہارتے نظر آتے ہیں۔
دیکھا ہے کیا کہ دیکھنا بس میں رہا نہیں
آنکھوں میں روشنی ہے مگر حوصلہ نہیں

تازہ ترین