• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی موجودہ مہم جوئی منفعت بخش ثابت ہورہی ہے

Todays Print

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لاہور کی جانب گامزن اپنے کاروان کی جی ٹی روڈ پر کامیاب قیادت کی ہے۔جس میں بڑی تعداد میں ہجوم کو اپنی جانب متوجہ کرایا ہے، ان کے پاس اپنا احتجاج رقم کرانے کے 3ہی راستے تھے یعنی ہوائی سفر کے ذریعے لاہور پہنچتے، موٹر وے یا پھر جی ٹی روڈ کے راستے اپنے گھر جاتے،راولپنڈی میں عوام کی بڑی تعداد کمیٹی چوک ریلی میں شریک تھی، جہلم پہنچتے پہنچتے اس میں مزید اضافہ ہوا ، جب کہ گجرات میں اس کی تعداد اور بڑھ گئی۔

اس کا مطلب یہ ہو اکہ اس مہم کے آگے بڑھنے سے تحریک کو بھی فروغ مل رہا ہےجہاں تک سابق وزیر اعظم کی موجودہ مہم جوئی کا تعلق ہے۔وہ منفعت بخش ثابت ہورہی ہے اور ان کے کارکنان تک پیغام واضح طور پر پہنچ رہا ہے۔ ۔نوا زشریف کے پاس ایک راستہ یہ تھا کہ وہ نااہل ہونے کے بعد خاموشی اختیار کرلیتےاور کوئی احتجاج نہیں کرتے۔

فلائٹ کے ذریعے لاہور پہنچتےاور رائیونڈ میں اپنی رہائش گاہ پر آرام کرتے اور نیب کےریفرنس کیسز پر گرفتاری وارنٹ جاری ہونے کا انتظار کرتے، جیسا کہ کوئی غیر مقبول اور بے یارومددگار سیاست دان کرتے ہیں۔اس طرح کا عمل لازمی طور پر ان کی سیاست کو تباہ کردیتااور ان کے حامیوں اور کارکنوں کو دل برداشتہ کردیتا۔تاہم، ان جیسے قد آور سیاست دان کا نااہل ہونے پر خاموشی اختیار کرنا ایک غیر فطری بات ہوتی۔مسلم لیگ(ن)کے کچھ ’’عقلمند‘‘عناصر نے انہیں کسی قسم کے احتجاج نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، اگر نواز شریف ان کے مشورے پر عمل کرتےتو سیاسی اعتبار سے ان کے لیے تباہ کن ہوتا۔

جب محمد خان جونیجو کی حکومت جنرل ضیا الحق نےآئین کے آرٹیکل58(2)(b)کے تحت بغیر کسی وجہ کے 29مئی، 1988کو گرائی تھی تو انہوں نے بھی صرف ایک بار خطاب کیا ، وہ بھی تاخیر کے ساتھ جس کے سبب ان پر شکوک وشبہات کیے گئے۔اس کے بعد وہ سندھڑی روانہ ہوگئے۔ان کی کم سیاسی سرگرمیوں نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا اور وہ بہت جلد تاریخ کا حصہ بن گئے۔اس کے برعکس، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ہمیشہ ڈکٹیٹرز کی جانب سے اپنی غیر آئینی بے دخلی پر احتجاج کیا۔

ریلیاں اور جلوس نکالے۔اسی وجہ سے وہ کئی دہائیوں تک سیاست میں رہے اور اب بھی ہیں، کیوں کہ وہ خاموش نہیں بیٹھے۔وہ افراد جو نواز شریف کو جونیجو کی نقش قدم پر چلنے کی تلقین کررہے ہیں ، ان میں شاید کوئی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔کیا انہیں لاپتہ افرا د کا خوف کچھ زیادہ ہے یا ان کے پاس خاموشی کی نصیحت کرنے کی کوئی اور وجوہات ہیں؟وجہ جو بھی ہو، نواز شریف نے ان کی نصیحت پر غور نہیں کیا۔ان کے تمام مخالفین بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ خاموش رہیں۔تاہم، ان کی مایوسی میں اس وقت اضافہ ہوا جب نواز شریف نے براستہ جی ٹی روڈ سفر کا اعلان کیا۔بے دخل کیے گئے وزیر اعظم کے پاس دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے گھر لاہور براستہ موٹر وے جاتے، جس کے سبب انہیں اپنے کارکنوں سے خطاب کے زیادہ مواقع میسر نہیں آتے۔

اصل منصوبہ بھی یہی تھا کہ موٹر وے کے راستے سفر کیا جائے  اور راستے میں ایک جگہ عوام سے خطاب کیا جائے اور دوسرا خطاب لاہور میں ہو۔اس طرح لاہور جلدی پہنچ جانے کے سبب وہ مسلم لیگ(ن) کو اس طرز پر متحرک نہیں کرسکتے تھے ، جیسا کہ اب کیا ہے۔اس سے ان کے کارکنوں کو بھی ان  کی نااہلیت سے متعلق ان کا موقف جاننے میں مدد ملی ہے۔نواز شریف کا منصوبہ موٹر وے سے سفر کرنے کا تھا تاہم پارٹی نے مشاورت کے بعد پروگرام میں تبدیلی کا کہا۔ان کے پاس تیسرا راستہ یہ تھا کہ وہ کاروان براستہ جی ٹی روڈ ، لاہور پہنچیں اور مختلف جگہوں پر ٹھہر کر عوام کو اپنے موقف سے آگاہ کریں۔

ان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے چند ہی رہنما ہیں باقی سب اپنی حکومتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی پوری کابینہ ماسوائے تین ارکان کے اپنی حکومتی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں میں مصروف ہیں۔کام کرنے کا یہ اچھا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے۔جہاں تک سابق وزیر اعظم کی موجودہ مہم جوئی کا تعلق ہے۔وہ منفعت بخش ثابت ہورہی ہے اور ان کے کارکنان تک پیغام واضح طور پر پہنچ رہا ہے۔جنہیں یقین ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ ان کی نااہلیت ثابت نہیں کرسکے ہیں۔جب تک وہ لاہور پہنچیں گے ، تب تک وہ 4اہم ریلیوں سے خطاب کرچکے ہوں گے۔اس بات سے قطع نظر کہ عوام کی ان کے جی ٹی روڈ سے سفر کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے، اس کی کامیابی کا اندازہ ان کے مخالفین کے ردعمل سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔جیسے جیسے سفر آگے بڑھ رہا ہے، ان کی تنقید میں شدت آرہی ہے، مسلم لیگ(ن)کے کچھ رہنمائوں کی طرح  ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ نواز شریف کو موٹر وے سے سفر کرنا چاہئے تھا، کیوں کہ اس راستے سے مسلم لیگ(ن)کو زیادہ سرگرمیوں کے مواقع میسر نہیں آتے اور ان کا واپس گھر جانا، دھندلا اور ماند ہی رہتا۔

تازہ ترین