• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مظلوم کا ساتھ دینے کے نعرے کے ساتھ نواز شریف اپنی چار روزہ ریلی کے آخری دن(میرے اس کالم کے لکھتے وقت تک) لاہور پہنچنے والے ہیں۔ اپنی ریلی کے راستے میں آنے والے شہروں پنڈی، جہلم، گوجرانوالہ کے ساتھ ساتھ کھاریاں، لالہ موسیٰ وغیرہ میں انہو ںنے بار بار یہی سوال کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کا قصور کیا ہے؟ (ایسے جیسے وہ خود اور عوام نہیں جانتے کہ ان کا قصور کیاہے؟) وہ اب اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں پیش کر رہے ہیں اور عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں۔ ان کے ساتھ بار بار یہ سلوک ہواہے۔ کبھی ان کو اسٹیبلشمنٹ فارغ کردیتی ہے اور کبھی عدلیہ لیکن بقول نوازشریف ان سب کے پیچھے ایک ہی ہاتھ کارفرما ہے۔ وہ کہتےہیں کہ ان کے ساتھ جو ہوا اللہ دیکھ رہا ہے۔ اس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام نہیں چل سکتا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان چند مخصوص لوگوں کا نہیں اور یہ کہ اب وہ اصل پاکستان بنائے بغیر نہیں بیٹھیں گے۔ عوام کی عدالت میں مقدمہ لا کر وہ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ووٹ کی پرچی کو روندنے والوں کو قوم معاف نہیں کرے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لئے (اگر کوئی واضح مقصد ہے تو) نواز شریف نے یہ ریلی نکالی ہے کیا وہ اسے پانےمیں کامیاب ہو جائیں گے؟ کیا اس ریلی کونکالتے وقت وہ اپنےگول کے معاملے میں واضح ذہن رکھتے تھے؟ کیا مسلم لیگ کی سبھی بااثر شخصیات اس گول کےمعاملے میں ان کے ساتھ ہیں؟ اور یہ بھی کہ کیا جس ’’دشمن قوت‘‘ کی طرف وہ اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں اس معاملے میں ان کا اشارہ واضح ہے؟ اس حوالےسے ہم ایک دوسوالات کا اور اضافہ کرسکتے ہیں مثلاً یہ کہ اگر ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے تو کیا وہ عوام کو یہ بتانے میںکامیاب ہوسکے ہیں کہ ان کی ہر بار ان سے لڑائی کیوں ہو جاتی ہے؟ آخر ان کے اور ان کے مقاصد میںایسا کیا تضاد ہے کہ جس کی بنیاد پر ’’وہ‘‘ انہیں پسند نہیں کرتے۔
خود مسلم لیگ کی سرکردہ شخصیات ان سوالات کا کوئی واضح جواب نہیں دے سکتیں۔ ان کے بقول نواز شریف صاحب سے اسٹیبلشمنٹ اس لئے مخاصمت رکھتی ہے کہ نواز شریف صاحب کے اپنےہمسایوں سے تعلقات کی پالیسی جس میں افغانستان کےاندر دراندازی سے لے کر ہندوستان سے بہتر تعلقات کی خواہش بھی شامل ہے، کے بار ےمیں نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے وژن میں واضح فرق ہے اور اسی فرق اور تضاد کی وجہ سے انہیں اس بار حکومت سے باہر نکالا گیا ہے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اول تو اس بار نواز شریف اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگانے میں بہت واضح انداز میںکوئی بات نہیں کر رہے اور دوم یہ کہ اپنے اس وژن کو انہوں نے کب اور کس وقت عوام کے سامنے رکھ کر یہ بات کرنےکی کوشش کی ہے کہ وہ ہندوستان سے جنگ نہیں چاہتے اور باقی ہمسایوں کے ساتھ بھی پرامن طور پر تعلقات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
جس مظلوم ہونے کے نعرے وہ لگا رہے ہیں ان نعروں میں سوائےاس کے کہ وہ بار بار عدلیہ کے پانچ ججوں کے فیصلوں کو غلط قرار دے رہے ہیں اس سے تو یہ بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ انہیں عدلیہ نے اس لئے فارغ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے وژن سے پیچھے ہٹنے کے معاملے میں ہٹ دھرمی دکھائی ہے۔ عدلیہ کے فیصلے کو اگر تفصیل سے پڑھا جائے تو اس میں جو الزامات ان پر اور ان کے خاندان پر لگائے گئے ہیں اور جس کے لئے انہیں جواب دینے کے لئے JITکے لمبے لمبے سیشن ہوئے، ان تمام میں نواز شریف اور ان کا خاندان کوئی ایسا جواب دینے میں ناکام رہے کہ جس سے ان پر لگائےگئے الزامات کی صفائی ہوسکتی۔ ایسے میں جب نیب میں معاملات چلنے شروع ہوں گے ۔
تو اگر عارضی طور پر اپنے کچھ ووٹروں کو نوازشریف یہ یقین دلانے میںکامیاب بھی رہتے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں تو نیب کی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے کھلنے کے بعد بہت سے لوگ یہ یقین کرنے پر مجبور ہوں گے کہ اصل معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ ایسے وقت میں نواز شریف کے پاس کیا آپشن بچتا ہے۔ ہمارا بٹا ہوا میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے مبصرین اس سوال کے جواب میں بھی فکرمند ہیں۔ نواز شریف آئندہ آنےوالے دنوں میں لگتا ہے کہ اپنے بیانات میں سختی لانا چاہتے ہیں کہ وہ چپ کرکے بیٹھنے کے حق میں نہیں لگتے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں یہ یقین سا ہو گیا ہے کہ اگر وہ چپ کرکے بیٹھ گئے تو یہ گویا مائنس وَن ہو جائے گا۔ وہ جانتے ہیںکہ اگر بہت سوں کی خواہش کےمطابق شہباز شریف کو آگے لایا جائے اورچوہدری نثار کی بات مان کر اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی ختم کی جائے تو پھر مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ن) نہیں رہے گی بلکہ پھر وہ کچھ اور بن جائے گی۔
سیاسی مبصرین کے لئے یہ سب کچھ بھی بہت دلچسپ ہوگا۔ ایک سیاسی جماعت جس کی بنیاد ہی ایک اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی کے طور پر پڑی اب نواز شریف کی ضد کی وجہ سے ان سے دوری پر ہے۔ بہت سوں کے مطابق اس کی بقا اسی میں مضمر ہے کہ یہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کے مشوروںکے مطابق اپنے آپ کو دوبارہ اپنی انہی جڑوںکی طرف واپس لائے۔ ایسی صورت میں اگر دوستی ہوتی ہے تو اس کا ایک بڑا فائدہ خود نوازشریف اور ان کے خاندان کو ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں شاید نیب کے لئے ایک نگران جج والی شرط واپس لے لی جائے۔ اس صورتحال میں مسلم لیگ اپنے آپ کو عمران خان کے مقابلے میں بہتر پارٹی کے طور پر پیش کرسکتی ہے۔میں خود البتہ اس سے متفق نہیں ہوں۔ میرے خیال میں پریکٹیکل سیاست سے اب نواز شریف کا بستر گول ہو چکا ہے۔ وہ قائد کی حیثیت سے تو کچھ دیر سیات میں زندہ رہ سکتے ہیں لیکن یہ بھی بہت دیر تک نہیں ہوگا۔

تازہ ترین