• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ایک بدلے ہوئے نوازشریف نظر آرہے ہیں۔آٹھ سال پہلے گجرانوالہ کے اسی گھر میں نوازشریف کو دیکھا تھا۔2009 اور اب2017وہی گھر،وہی خرم دستگیر خان،وہی مسلم لیگ ن مگر ایک نظریاتی نوازشریف۔آج اور آٹھ سال پہلے گجرانوالہ کے قیام میں یہی فرق تھاکہ اس وقت نوازشریف کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا اور آج نوازشریف لاہور کی طرف جارہے ہیں۔آٹھ سال پہلے یہی نوازشریف عدلیہ کو بحال کرانے کے لئے اسلام آباد کو نکلے تھے اور آج اسی عدلیہ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد سے واپس جارہے ہیں۔اسی نوازشریف نے ملک میں معزول عدلیہ کو اپنے لانگ مارچ سے بحال کرایا تھا۔آج وہی نوازشریف معزول کردیا گیا ہے۔مگر آج کے نوازشریف اور آٹھ سال پہلے کے نوازشریف میں ایک قدر ضرور مشترک ہے کہ تب بھی نوازشریف ایک مقصد سے نکلا تھا اور آج بھی نوازشریف کے مارچ کا ایک مقصد ہے۔سویلین بالادستی اور پارلیمنٹ کی حکمرانی کا خواب ضرور ہے مگر اس مرتبہ نوازشریف بڑا فیصلہ کرنے کے موڈ میں ہیں۔
دھیمے اور شائستہ مزاج کے حامل نوازشریف کو کبھی اتنی گہری سوچ میں ڈوبے نہیں پایا۔نوازشریف بہت سوچ سمجھ کر یہ ریلی نکال رہے ہیں۔یہ ہر گز جذباتی فیصلہ نہیں ہے۔اب کی بار نوازشریف وزارت عظمیٰ نہیں بلکہ تاریخی فیصلوں کا مینڈیٹ لینے کا سوچ کر نکلے ہیں۔ارادے کی تکمیل میں حائل ہر قسم کی رکاوٹ سے نوازشریف آگاہ ہیں مگر اپنا سیاسی کیرئیر بطور سابق وزیراعظم نہیں بلکہ پاکستان کے نیلسن مینڈیلا بن کر ختم کرنا چاہتے ہیں۔آج کا نوازشریف سب کچھ اقتدار نہیں بلکہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے کررہا ہے۔اسلام آباد سے نکلتے ہوئے نوازشریف کے ارادے میں پختگی ہو نہ ہو مگر راولپنڈی ،جہلم ،گجرات اور رہی سہی کثر اہالیان گجرانوالہ نے پوری کردی ہے۔اب کوئی ڈیل یا کسی قسم کی آفر نوازشریف کا فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتی۔آج اگر نوازشریف نے اپنے سیاسی کیرئیر کا کٹھن ترین فیصلہ لیا ہے تو اس کی وجہ یہی عوامی مقبولیت ہے جو جی ٹی روڈ کے ہرضلع، تحصیل، گاؤں اور قصبے میں ملی ہے۔ابھی لاہور پہنچنا باقی ہے۔ تادم تحریر نوازشریف لاہور کے لئے روانہ نہیں ہوئے تھے۔ مگر گجرانوالہ میں دیرینہ ساتھی خرم دستگیر کے بہنوئی کی رہائش گاہ سے لاہور نکلنے کی تیار ی مکمل کرچکے تھے۔ صبح کے ناشتے کے بعد مسلم لیگ کے قائد نوازشریف سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔چہرے سے تھکن کے آثار نمایاں تھے مگر جذبے جواں تھے۔نوازشریف لاہور روانگی کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی سن رہے تھے۔ بین الاقوامی میڈیابالخصوص برطانیہ اور امریکی نشریاتی و اشاعتی اداروں کی کوریج گفتگو میں زیر بحث رہی۔ نوازشریف لاہور پہنچ کر بیٹھیں گے نہیں بلکہ عوامی رابطہ مہم کو مزید تیز کریں گے۔اس حوالے سے ان کے دل میں کیا ہے۔ اس کا وہ برملا اظہار تو نہیں کررہے مگر آپ ان کی جانب سے ہونے والے فیصلوں کو محسوس ضرور کرسکتے ہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے نوازشریف بہت کم بات کرتے ہیں مگر انہیں پاناما کیس میں عدالتی کردار پر تکلیف ضرور ہے۔ سسلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے القابات سننے کے باوجود نوازشریف ذاتی سطح کی محفلوں میں بھی عدلیہ کے حوالے سے اچھے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔نوازشریف کو کسی جج کی ذات سے کوئی اختلاف نہیں ہے ،ہاں البتہ عدالتی فیصلے سے ضرور اختلاف کرتے ہیں،جو ان کا حق بھی ہے۔اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں اس ریلی سے دو روز قبل ہونے والی ملاقات میں نوازشریف کے جو اہداف تھے آج بھی وہ اپنی جگہ قائم ہیں۔
ارادے جن کے پختہ ہوں ،نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
آج گجرانوالہ سے لاہور روانگی حتمی طور پر اس کارواں کی طاقت کا تعین کرے گی۔گو کہ گزشتہ تین دنوں سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ میری یا پاکستان کے کسی روزنامہ کی رپورٹ نہیں ہے۔بلکہ نیو یار ک ٹائمز اور گارجین جیسے بین الاقوامی اشاعتی ادارے اس کارواں کو جمہوریت بچانے کے لئے لاکھوں افراد کی ریلی قرار دے رہے ہیں۔گزشتہ دو دنوں کے دوران بار بار جی ٹی روڈ سے لاہور اور لاہور سے گجرانوالہ سفرکرنے کا اتفاق ہوا ہے۔آج نوازشریف کا لاہور میں ہونے والا استقبال ملکی تاریخ کی تمام سابقہ ریلیوں اور جلسوں کا ریکارڈ توڑ دےگا۔آج کے ویلکم کے بعد شاید نوازشریف خود بھی اپنا ریکارڈ نہ توڑ سکیں۔ نوازشریف کی گجرانوالہ سے لاہور روانگی سے آدھا گھنٹہ قبل یہ خاکسار لاہور کی طرف روانہ ہوا۔سڑک پر تل دھرنے کو جگہ نہیںتھی۔عوام کا ٹھاٹھیںمارتا ہوا سمندر خود ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔جو سخت دھوپ اور شدید گرمی کی پروا کئے بغیر نوازشریف کی آمد کے منتظر تھے۔نوازشریف کا ارادہ ہے کہ وہ شام 7بجے لاہور میں داخل ہوں گے۔ صورتحال دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر نوازشریف رات 12بجے تک بھی لاہور خطاب کے مقام پر پہنچ جائیں تو بڑی بات ہوگی۔صرف جی ٹی روڈ ہی نہیں بلکہ نہر اور ٹھوکر نیاز بیگ تک جذباتی عوام کو نوازشریف کے لئے نکلے ہوئے دیکھا ہے۔
مجھے نہیں معلوم نوازشریف اس کٹھن جنگ میں فاتح قرار پائیں گے یا نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ نوازشریف آج سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ضرور ہوچکے ہیں۔ماضی کی غلطیاں اپنی جگہ مگر ان کا اعتراف کر نا بڑا پن ہوتا ہے۔جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 2007میں سابق آمر مشرف کے سامنے انکار کیا تھا اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے بعد چیف جسٹس کے منصب پر واپس آئے تھے تو ہم سب نے پی سی او حلف سمیت ان کی ماضی کی تمام غلطیوں کو نظر انداز کردیا تھا۔ہم نے یہ تک معاف کردیا تھا کہ اسی عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو جواز بنا کر سابق آمر مشرف کو ریفرنڈم سمیت تمام معاملات میں آئینی تحفظ دیا تھا۔ہم نے 1971کی جنگ،سقوط ڈھاکہ ،کارگل اور چار مارشل لا معاف کردئیے ہیں تو نوازشریف کے لئے معیار کیوں مختلف ہیں۔اگر نوازشریف نے آج سویلین بالادستی اور پارلیمنٹ کی حکمرانی کا نعرہ لگایا ہے تو ہمیں ان کی جرات پر سلام کرتے ہوئےان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔آج وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان میں سویلین بالادستی کے لئے سڑکوں پر موجود ہیں۔مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ نوازشریف ہے تو بہادر مگر کمزوروں کے لشکر میں ہے۔آج پاکستان کےعوام اور مسلم لیگ ن کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کمزوروں کا لشکر نہیں بلکہ سویلین بالادستی کی دوڑ میں بہادروں کا لشکر ہے۔

تازہ ترین