• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاریب! زندہ دلانِ لاہور نے میاں نواز شریف کی محبتوں کا وہ قرض جو ،ان پر واجب الادا تھا، احسن طریقے سے ادا کردیا۔ وہ جو ایک محاورہ ہے ’’پورا شہر امڈ آیا تھا‘‘ پوری آب و تاب سے اپنی صداقت لیے ہوئے تھا۔سرسید احمد خان نے جب علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی بنانے کا ارادہ کیا، تو عطیات (چندہ) جمع کرنے لاہور تشریف لائے، اہالیانِ لاہور نے دل کھول کر اور جیب فراخ کئے حضرت کو مالا مال کیا۔ مبلغ ِعصر بے اختیار کہہ گئے، اے زندہ دلان لاہور تمہارا شکریہ....پھر یہ لقب ان کھلے ڈھلے بے ریا لوگوں کے ماتھے کا جھومر ٹھہرا۔ راقم اقرار کرتا ہے کہ اسے اپنا پشاور اور اپنے آبائو و اجداد کا ’کابل‘ بہت پیارا ہے، لیکن لاہور، لاہور ہے.....
اسلام آباد سے قافلہ نکلا اور لاہور آپہنچا ۔ قافلے نے جہاں جہاں پڑائو کیا، تو عوام کو دیدہ و دل فرش راہ کئے پایا، گویا حضرت آتش کے تخیل کی تصویرکو، ’کو بہ کو‘ رنگ و نور لیے اُبھرتی نکھرتی نظر آئی۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
شیر خوار بچوں کو سینے سے لگائے خواتین ، سہارا لئے بزرگ، مست و بے قابو نوجوان، الغرض ہر عمر ہر مسلک ہر دین دھرم کے لاکھوں مرد و زن... میاں صاحب کے استقبال کی خاطر موسم کی بے رخی، ذاتی ضرورتوں کی تندہی اور گھریلو مصروفیات کی مجبوری بالائے طاق رکھ کر زنجیر بنائے ہوئے تھے۔ معاملہ بڑا سیدھا و سادہ ہے کہ یہ لوگ میاں صاحب کو اپنا قائد سمجھتے ہیں، قائد پاکستان.....اور یوں وہ ان سے اظہار ہمدردی و محبت کے لیے مانندِ بحرِ بے کراں تھے۔
یہ واضح ہو کہ یہ طالب علم مسلم لیگ نامی کسی بھی جماعت سے ذہنی و قلبی ہم آہنگی نہیں پاتا،مگر جب جب جبر بروئے کار آتاہے، قلم کمزور ہونے کے باوصف مقدور بھر کوشش کیلئے مچلنے لگتا ہے۔یہ ممکن ہے اس ناچیز کو نظرآنے والی روشنی سراب ہو، لیکن معیارِ نیت حق ہے۔ اندازے میں غلطی کا سوفیصد امکان ہے،مگر ہم جیسے لوگ مقلد صرف اپنی سوچ وفکر ہی کے ہوتے ہیں۔یہ بھی اعتراف ہے کہ نظریاتی حوالے سے ہمیںپی پی مقدم ہے۔لیکن کیا کیا جائے کہ تحریک انصاف کا واویلا تو یوں صرف نظر ہے کہ اس کی حیات ہی انگلی کی مرہون منت ہے ۔ باعثِ خلجان یہ امر ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما کسی کو متوجہ کرنے کی خاطرمیاں صاحب سے جو جو سوالات اٹھا رہے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ اس سے وہ اس قوت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کی ترجمانی کیلئے دل و جاں سےحاضر ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی آبِ زم زم سے بھی دُھل کر آجائے، اس کے داغ پھر بھی نمایاں ہی رہیں گے، چہ جائیکہ کوئی ملکی ادارہ اسے قبول کرلے۔ ہم یہاں پیپلز پارٹی کے اس سوال پر کہ میاں صاحب سازش کرنے والے کا نام کیوں نہیں بتاتے اور یہ کہ انہوں نے لانگ مارچ کس کے خلاف کیا.....یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ذرا پیپلز پارٹی بھی یہ بتادے کہ دورانِ اقتدار قصرِ صدارت میں جناب صدر زرداری کس کے خوف سے سرہانے پستول رکھ کر سوتے تھے۔ وہ پی پی کے ایک رہنما نے ریاست کے اندر ریاست کی جو بات کی تھی، تو اس سے کیا مراد تھی......وہ محترمہ بی بی شہید اور میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادتوں کا اپنے ادوار میں حساب کیوں بے باق نہیں کرسکی۔ اگر بھارت کی سکھ حریت پسندوں کی فہرست سے لے کر میمو گیٹ تک کے زمانے کے سوالات اٹھائے جائیں تو پیپلز پارٹی جواب دیتے دیتے تھک جائے گی۔ چونکہ وہ قومی خزانہ لوٹنے کے بعدعوامی دولت کےانبار کے بوجھ تلے پہلے ہی بہت تھک چکی ہے، اس لیے ہم اس مشکل میں مزید اضافے کے روادار نہیں... دوسری طرف ہم جیسے طالب علم، جب تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم مسلم لیگ ن سمیت اس نام کی ہر جماعت کو نظریات سے عاری پاتے ہیں۔ یہ نظریات ہی ہوتے ہیں جو کسی شخص، جماعت یا تحریک کو استقامت بخشتے ہیں۔ پیپلز پارٹی جب جب نظریات سے لیس رہی، یہ تمام جماعتوں پر بھاری اور سیکولر و ترقی پسند عوام کی ترجمان بنی رہی۔ حالیہ دور میں یہ کھوکھلی اس سبب ہوچکی ہے کہ یہ نظریات سے خالی اور موقع پرستوں سے بھری پڑی ہے۔ہاں فرحت اللہ بابر اور میاں رضا ربانی جیسے اصحاب اُمید کی کرن ضرور ہیں۔ ان دنوں میاں صاحب کی گفتگو کا محور دو نکات ہیں۔ یعنی ایک تو وہ یہ کہتے ہیں۔
شعرکے پردے میں، میں نے غم سنایا ہے بہت
مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت
بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش
درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت
وادی و کہسار میں روتا ہوں دھاڑیں مار مار
دلبرانِ شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت
پھر اگلے ہی لمحے وہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اب نظریاتی ہوگئے ہیں۔ایک واقعہ سناتے ہیں ۔خان عبدالولی خان اپنے 52ساتھیوں سمیت جب بھٹو صاحب کی’ عوامی‘ حکومت میں جیل میں 30ماہ گزارنے کے بعد رہا ہوئے تو جون 1978کو بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئےجہاندیدہ ولی خان نے کہا ’’میری سیاست ملک کی سیاست ہے ،میں اگر صوبہ سرحد (پختونخوا) اور بلوچستان کی بات زیادہ کرتا ہوں تو اس کی وجہ ان صوبوں کی جیو پولیٹکل (جغرافیائی سیاسی ) حیثیت ہے۔ میں پنجاب کے بھائیوں کے پاس بار ہاگیا، انہوں نے ہر مرتبہ مجھے محبت سے نوازا، لیکن بعض قوتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ ہماری سیاست پنجاب میں فروغ نہ پائے، ہم پر پنجاب جانے پر پابندیاں لگائی گئیں، جیلوں میں ڈالا گیا‘‘۔ ملک گیر سیاست کے حوالےسے تفصیلات بیان کرنے کے بعد دیدہ و بیناولی خان اس انٹرویو میں پیش گوئی کرتے ہیں۔ ’’جب تک پنجاب ’’Indigenous‘‘ (دیسی،اپنا) لیڈر پیدا نہیں کرلیتا، پاکستان کی سیاست میں توازن قائم نہیں ہوسکے گا۔ ملک میں ایسے لیڈر ابھرتے رہیں گے جو پنجاب کے عوام کو ’’سینڈبیگ‘‘ مورچے پر رکھی جانے والی ریت کی بوری کے طورپر استعمال کرتےرہیں گے۔ جن دنوں غلام مصطفیٰ کھر صاحب پنجاب کے گورنر تھے، میں نے یہی بات ان سے بھی کہہ دی تھی۔ اب بھی یہ کہتا ہوں کہ اگر پنجاب کی اپنی قیادت ہوگی تو وہ دوسرے صوبوں سے جھگڑا نہیں کرے گی، نہ کسی آمر کو ان کے خلاف پنجاب کی طاقت استعمال کرنے دے گی‘‘۔ مون ڈائجسٹ کو انٹرویو میں آپ نے فرمایا ’’پاکستانی فوج ہم سب کی آن اور آبرو ہے، ملک کی محافظ ہے، ہم جب آمر کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ فوج کی مخالفت نہیں ہوتی، اس سے مراد چند طالع آزما جرنیل ہوتے ہیں۔‘‘
ولی خان کی حیات میں جب مسلم لیگ اور اے این پی کا اتحاد ہوا، تو خان صاحب نے میاں نواز شریف کو اس اتحاد کا کپتان قرار دیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ولی خان صاحب پنجاب سے اُبھرنے والی اس سیاسی شخصیت میں قائدانہ کمال دیکھتے تھے۔ خان صاحب کی رحلت کے بعدسیاست میں بدعتوں پر بدعتیں در آئیں۔این آراو سے کالے کوٹ کے واقعات نے سیاست کو داغدار کیا۔اس طرح ایستادہ بت سوالیہ نشان بن گیا۔
اب ایک اور اعلان ہوا ہے ، نظریاتی بننے کا..اہلِ پنجاب نے جسے پزیرائی بھی بخشی ہے۔تو کیا اس سال کا یوم آزادی بے داغ ولی خان کی پیش گوئی کی اصابت کا سامان لئے ہوئےآیا ہے۔ایک قائد جس کا تعلق پنجاب سے ہے ، کیاپورے پاکستان کے عوام کے دکھوں کا دردمان بنا چاہتا ہے۔مگر صاحب ٹھہرئیے.....کیا لوٹے بننے میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے مسلم لیگی بھی نظریاتی بننے کیلئے تیار ہیں....؟

تازہ ترین