• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداروں کے مابین براہ راست تصادم سے گریز کیلئے احتیاط کی ضرورت

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) نواز شریف جانتے ہیں کہ سیاسی پچ پر لڑنے کے لئے اور اپنے مخالفین اور مبینہ منصوبہ سازوں کو مات دینے کے لئے ان کا کیس مضبوط ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں نااہل قرار دینے کے کمزور اور متنازع فیصلے میں وہ تمام اجزا پائے جاتے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہ سیاسی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

وہ ایسا ہی کر رہے ہیں لیکن غالبا احتیاط کا دامن چھوڑنے کے کچھ اشاروں کےساتھ، جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ جی ٹی روڈ کی اپنی ریلی میں جو لاہور میں ہفتے کی رات ختم ہوئی ، نواز شریف نے معقول تعداد میں ہجوم کو اپنی جانب کامیابی سے راغب کیا۔ نااہلی کے بعد ان کی سیاسی مہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہدف بنایا ہے، عدالت کی غیرجابنداری پر سوالات اٹھائے ہیں، شبہ ہوتا ہے کہ ان کی نااہلی کی پہلے سے منصوبہ بندی تھی اور یہ انہیں اقتدار سے باہر کرنے کے منصوبے کا حصہ تھا اور تاریخ یاد آجاتی ہے کہ جب چند افراد (اسٹیبلشمنٹ کے) آئین اور سویلین حکمرانی کے ساتھ کھیلتے رہےہیں۔

بار بار انہوں نے پاکستان کی 70 سال کی تاریخ کا حوالہ دیا جہاں کسی وزیراعظم کو اپنی مدت پوری کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ طاقت ور اسٹیبلشمنٹ نے طویل حکمرانی کا لطف اٹھایا۔ انہوں نے عوام کے مینڈیٹ کی بار بار توہین کیے جاتے رہنے کی بات کی اور زور دیا کہ عوام نے ووٹ سے انہیں اقتدار دیا لیکن چند لوگوں نے انہیں ایوان وزیراعظم سے نکال باہر کیا۔ بلاشبہ وہ ماضی کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ تاریخ کے ریکارڈ کا معاملہ ہے کہ جب سویلین حکومتیں طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کا ہدف بنی رہیں۔ تاہم انہوں نے اس ذکر کو نظرانداز کر دیا کہ کس طرح بشمول ان کے، سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں۔

نواز شریف کو احتجاج کرنے اور سیاست کرنے کا حق ہے۔ ملکی قانون کے مطابق وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی تنقید کر سکتے ہیں اور ججوں کے تعصب کے بارے میں بھی بات کر سکتے ہیں۔ تاہم انہیں عدالت کا مذاق اڑانا یا توہین نہیں کرنا چاہیے، خواہ ان کے ساتھ غیرمنصفانہ معاملہ ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے کیس میں سنگین تنازعات وابستہ رہے ہیں۔ سوالات اٹھائے گئے کہ کس طرح ایک ’’غیر سنجیدہ‘‘ درخواست عدالت میں سابق وزیراعظم کی نااہلی پر منتج ہوئی۔ جے آئی ٹی کے قیام اور اس کے کردار کے بارے میں متعدد تنازعات رہے ہیں۔

خود سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانونی برداری سنگین اعتراضات ہوئے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے سابق وزیراعظم اور ان کی حکومت کو ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسیلین مافیا‘‘ قرار دینے کے ریمارکس پر بھی عدالت کے خلاف تنقید ہوئی۔ تمام مذکورہ بالا تنازعات، نزاع اور خرابیوں کی بنیاد پر نواز شریف کے پاس سیاست کرنے کے لئے اور متاثرہ ہونے کا کارڈ استعمال کر کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے بہت مواد موجود ہے لیکن کبھی کبھار وہ عدالت کی بابت سرخ لکیر کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور اگر وہ اپنی نئی مہم کے ذریعے ووٹر کے انتخاب کے احترام کے ذریعے سویلین حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لئے واقعی نظام کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت میں ان کے کچھ سیاسی حریفوں کی یہ خواہش ہے کہ ان کا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست ٹکراؤ کرادیا جائے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ پاکستان اور اس کی کمزور جمہوریت دونوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔ پاکستان کو آئین کی حکمرانی کو سربلند رکھنے کے لئے کھلی بحث کی ضرورت ہے جہاں تمام اداروں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے دائرکار میں کام کریں اور سویلین حکومت کے خلاف عدلیہ اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے مابین گٹھ جوڑ نہ ہو۔ اس ہدف کو کسی بھی ریاستی ادارے کی توہین کیے بغیر حاصل کیا جانا چاہیے۔

اس منظر نامے میں جہاں کچھ سیاستدان نہایت مایوسی کے عالم میں نواز شریف اور اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا جائے، سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے ملک میں آئین کی حکمرانی کو سربلند رکھنے کے لئے سیاستدانوں، عدلیہ اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ممکنہ بات چیت کے لئے ایک منفرد قدم اٹھایا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں طاقت ور اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ گٹھ جوڑ نے سویلین حکومتوں کو کبھی اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاستدان اور سویلین حکومتیں بھی جمہوریت کا پھل عام آدمی تک پہنچانے میں ناکام رہیں تاہم سویلین حکومتوں کا کہنا ہے کہ ایک تو انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا اور دوسری بات یہ ہے کہ بعض معاملات اب تک حل طلب ہیں۔

لہٰذا اگر ماضی میں عدلیہ اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے مہم جو افراد کی جانب سے ووٹ کے تقدس کا احترام نہیں کیا گیا تو منتخب حکومتیں بھی عوام سے کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہیں تاہم سویلین حکومت کا اصرار ہے کہ انہیں کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ جی ٹی روڈ کی ریلی نے ایک نکتے کو ثابت کر دیا ہے، نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد بھی عوام میں مقبول ہیں اور اس وجہ سے پاکستان کی سیاست میں اب بھی متعلق ہیں۔ آئین کی حکمرانی کو سربلند کرنے کے لئے انہیں مثبت انداز میں اپنا حصہ بٹاتے ہوئے دیکھنا بہت اچھا لگے گا۔ 

تازہ ترین