• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان الحمد للہ آج اپنی زندگی کے اکہترویں سال کا آغاز کررہا ہے۔ جن انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اس ملک کے قیام کیلئے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی جدوجہد اس بنیاد پر کامیابی سے ہمکنارہوئی کہ انہیں اپنے نظریہ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے علیحدہ خطہ زمین چاہیے اور اس کے بعد سات دہائیوں کے دوران ملک کے اندر ریاستی اداروں کی باہمی کشمکش ، مقتدر طبقوں کی خود غرضیوں، بھارت کی مسلسل پاکستان مخالف پالیسیوں، کشمیر کے تنازع، ہتھیاروں کی دوڑ، تین پاک بھارت جنگوں، سقوط مشرقی پاکستان اورخطے میں امریکی پالیسیوں کے باعث ابھرنے والے دہشت گردی کے فتنے کی شکل میں جن سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے پاکستانی قوم نبرد آزما رہی ان کے پیش نظر پاکستان کو انسانی تاریخ کا ایک زندہ معجزہ کہنا غلط نہیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اپنی سحر انگیز قیادت میں بننے والے اس ملک کاایک سال بعد ہی ساتھ چھوڑ گئے۔ قائد ملت لیاقت علی خان کو طالع آزما عناصر نے پاکستان کی عمر کے چوتھے برس کی تکمیل سے پہلے ایک سفاک قاتل کی بندوق کی گولی کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا۔انکے قتل کے اصل منصوبہ سازوں کا سراغ لگانے کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیا گیا ۔ اسکے بعد ریاستی طاقت کے اصل مراکزپر غیرجمہوری قوتوں کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی ۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت اور دستور ساز اسمبلی برطرف ہوئی۔ اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل غلام محمد کے ان اقدامات کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت سے دستور ساز اسمبلی کی بحالی کا حکم ملا۔ گورنر جنرل نے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی اور اس وقت کے چیف جسٹس نے گورنر کے غیر آئینی اور غیر جمہوری حکم کو نظریہ ضرورت ایجاد کرکے جائز قرار دے دیا۔ نظریہ ضرورت کا آسیب اسکے بعد ہمارے نظام انصاف پر مسلسل مسلط رہا اور آئینی و جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے والی طاقتوں کو اسی بنیاد پر سند ِ جواز ملتی رہی۔ یہ صورت حال ملک میں جمہوری اور آئینی نظام کے استحکام میں رکاوٹ بنی رہی ۔ منتخب حکومتوں اور آئین مملکت کا غیر جمہوری عناصر کے ہاتھوں بار بار خاتمہ یا تعطل بنیادی قومی پالیسیوں کی مستقل بنیادوں پر تشکیل میں حائل رہا ۔یہ کشمکش سات دہائیوں سے جاری ہے جبکہ قومی مفادات کے تحفظ کیلئے تمام ریاستی اداروں میں تعاون اور مفاہمت ناگزیر ہے ۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کے حالیہ خطابات میں اس کشمکش کی خاصی تفصیلات موجود ہیں۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا پورا نظام اب تک عملاً ایڈھاک ازم یا ہنگامی بنیادوں پر چل رہا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کیلئے مستقل قومی پالیسیاں تشکیل دینے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔اس صورتحال پر قابو پاکر آئینی نظام کے تسلسل کو یقینی بنانا اور منتخب جمہوری حکومتوں کو اپنی میعاد پوری کر نے کا موقع دیا جاناملک کی بقا اور سلامتی کیلئے ناگزیر ہے۔منتخب حکمرانوں کو بھی من مانے اقدامات کے بجائے جمہوری معیارات کی پابندی کرتے ہوئے پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کو قرار واقعی اہمیت دینی چاہئے ۔ اس کیساتھ ساتھ ایک ایسا ہمہ گیر، بے لاگ اور خودمختار نظام احتساب تشکیل دیا جانا بھی لازمی ہے جو سیاسی حکومتوں اور قیادتوں ہی کے محاسبہ تک محدود نہ ہو بلکہ عدلیہ، انتظامیہ، فوج اور میڈیا سمیت تمام ریاستی اداروں اور زندگی کے تمام شعبوں کے وابستگان تک وسیع ہو۔ مستحکم آئینی نظام کا تسلسل ہی عوام کے بنیادی مسائل کے حل، قومی ضروریات کے مطابق مستقل اقتصادی حکمت عملی کی تشکیل، ملک کی نظریاتی بنیادوں اور عملی ضروریات کے تقاضوں پر پورا اترنے والے تعلیمی نظام کی ترویج، قومی مفادات کی محافظ خارجہ پالیسی کی تیاری اور پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی برادری کیساتھ تعلقات کے پائیدار اصولوں کے تعین کی راہ ہموار کر کے قوم کو حقیقی ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرسکتا ہے۔

تازہ ترین