• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سالوں کی بہ نسبت اس سال پاکستان کا 70 واں یوم آزادی ملک بھر میں بڑی جوش و خروش اور شان و شوکت سے منایا جارہا ہے، عوام نے اپنے گھروں اور عمارتوں کو قد آور پرچموں اور رنگ برنگے قمقموں سے سجایا ہواہے۔ قونصلر کارپس سندھ کے ڈین اور یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے گورنر سندھ، وزیراعلیٰ اور کمشنر کراچی کی جانب سے مزار قائد پر پرچم کشائی اور جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی۔ گزشتہ سال مزار قائد پر جشن آزادی کی تقریب میںمختلف ممالک کے قونصل جنرلز، اعلیٰ سرکاری حکام، بزنس کمیونٹی کے لیڈرز اور ممتاز صنعتکار شریک تھے جبکہ اسکولوں کے طلبا و طالبات نے ملی نغمات پیش کئے تھے۔ ’’آپریشن ضرب عضب‘‘، ’’رد الفساد‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ کے باعث کئی سالوں کے بعد پاکستانی قوم نے مزار قائد پر پرچم کشائی اور جشن آزادی کی ایک بڑی تقریب دیکھی تھی۔
قارئین! پاکستان کے 70 ویں یوم آزادی کے موقع پر آج میں پاکستان کی ترقی کا ایک جائزہ پیش کرنا چاہوں گا کہ ہم نے اس عرصے میں کیا کھویا کیا پایا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جس کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ ملک کی آبادی کا تقریباً 60% نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستانی محنت کشوں کی خدمات کو دنیا بھر میں نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، خلیجی ممالک کا جدید انفرااسٹرکچر انہی محنت کشوں کی مرہون منت ہے۔ پاکستانی پروفیشنلز، ڈاکٹرز، بینکرز اور محنت کشوں نے دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے جو وطن عزیز کو ہر سال تقریباً 20 بلین ڈالر کی خطیر ترسیلات زر بھیج رہے ہیں۔زیرو سے شروع کرنے والے اس سفر سے پاکستان آج دنیا کی 46 ویں بڑی معیشت ہے۔ اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کے پاس انتہائی تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس دنیا کی پانچویں بڑی فوج ہے جبکہ جیٹ فائٹر، آبدوزیں، میزائل اور دیگر جنگی ساز و سامان نہ صرف ملکی ضروریات کے مطابق تیار کئے جارہے ہیں بلکہ انہیں ایکسپورٹ کرکے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کیا جارہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت حکومت چلانے کیلئے اخراجات 80 کروڑ روپے اور آمدنی صرف 45 کروڑ روپے تھی اور فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کیلئے محب وطن مخیر حضرات سے مدد لی جاتی تھی۔ آج پاکستان کے ریونیو 3500 ارب روپے سے زائد ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ آزادی کے بعد سرکاری دفاتر میں مطلوبہ اسٹیشنری بھی دستیاب نہ تھی۔ کراچی جو اس وقت ملک کا دارالخلافہ تھا، میں لوگوں کی آمد و رفت کا ذریعہ ٹرام ہوتی تھی۔ 1947ء میں ایک ہزار افراد کیلئے صرف ایک گاڑی جبکہ آج اتنے ہی افراد کیلئے 52 گاڑیاں دستیاب ہیں۔ پاکستان آلودگی سے پاک سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کے استعمال میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ آزادی کے بعد صرف 4 ہزار صارفین کو ٹیلیفون کی سہولت دستیاب تھی اور ٹیلیفون کنکشن کیلئے 10 سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوتا تھا لیکن آج 10 کروڑ سے زائد افراد کو فون کی سہولتیں دستیاب ہیں اور پاکستان موبائل فون کے استعمال میں دنیا کا نواں بڑا ملک بن چکا ہے۔قیام پاکستان کے وقت عوام ٹی وی کی نشریات دیکھنے سے قاصر تھے لیکن آج ملک میں 100 سے زائد مقامی اور بین الاقوامی چینلز ہر گھر میں دستیاب ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔جیولوجیکل سروے کے مطابق ہمارے ملک میں 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے میں معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں کوئلے، تانبے، سونے، قدرتی گیس، تیل، ماربل، قیمتی پتھر، گرنائیڈ، نمک اور چونے کے ذخائر قابل ذکر ہیں۔ بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں دنیا کے پانچویں بڑے تانبے کے 22 ارب پائونڈ اور سونے کے 13 ملین اونس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان میں تھر اور لاکھڑا کے مقام پر دنیا کے تیسرے بڑے کوئلے کے 185 ارب ٹن کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ سندھ میں تھر کے مقام پر 90 فٹ گہرے کوئلے کے ذخائر وہ زیر زمین کالی دولت ہے جس کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر سے زیادہ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرتی گیس کے ذخائر عطا کئے ہیں اور اس وقت ہم 40 ارب کیوبک فٹ قدرتی گیس اپنی صنعتی، کمرشل اور گھریلو صارفین کو گیس پائپ لائن نیٹ ورک کے ذریعے مہیا کررہے ہیں جو ہماری مجموعی توانائی کا 50% ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو چاروں موسم عطا کئے ہیں اور ملک میں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام پایا جاتا ہے۔ ہماری زمین زرخیز ہے اور آج ہم 20کروڑ عوام کو کھانے کیلئے چاول، گیہوں، چینی فراہم کرنے کے بعد یہ اجناس دنیا میں ایکسپورٹ بھی کررہے ہیں۔ پاکستان دنیا بھر میں کینو کی پیداوار میں پہلے، چنے کی پیداوار میں دوسرے، کپاس، چاول، کھجور اور خوبانی کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ اسی طرح پاکستان مچھلی، دودھ اور گنے کی پیداوار میں پانچویں، گندم کی پیداوار میں چھٹے، خشک میوہ جات، پیاز اور آم کی پیداوار میں ساتویں، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی پیداوار میں آٹھویں، چینی اور حلال گوشت کی پیداوار میں نویں جبکہ سیمنٹ اور چاول کی پیداوار میں بارہویں نمبر پر ہے۔اقوام متحدہ کی فوڈ اور ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گھی پیدا کرنیوالا ملک ہے جبکہ ملک میں دنیا کے سب سے بڑے نمک کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں معدنی ذخائر رکھنے والا امیر ترین لیکن اسے استعمال کرنے میں غریب ترین ملک ہے۔ ملک میں دنیا کے کوئلے کے چوتھے بڑے جبکہ سونے (100ارب ڈالر) اور تانبے (27ارب ڈالر) کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن 6دہائیاں گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے ہم ان قدرتی نعمتوں کو زمین سے نکال کر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ ملک میں دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز تیار کئے جاتے ہیں۔ کھیلوں بالخصوص اسکواش، کرکٹ اور ہاکی میں پاکستان کو دنیا میں اہم مقام حاصل ہے اور پاکستان فٹ بال بنانے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح پاکستان خطے میں سیمنٹ ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر جس میں اسٹیل، سیمنٹ، آٹو موبائل، شوگر، فرٹیلائزر، ٹیکسٹائل، ویجی ٹیبل گھی، صنعتی کیمیکل،پیٹرولیم پروڈکٹس، آٹو پارٹس، بجلی کے پنکھوں کی صنعت شامل ہیں نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔
پاکستان کی ترقی بتاتے ہوئے ان وجوہات کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جن سے ہماری معاشی ترقی کو نقصان پہنچا اور ہم خطے کے دوسرے ممالک کی طرح ترقی نہیں کرسکے۔ ان وجوہات میں قیام پاکستان کے بعد جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام کا جاری رہنا، صنعتوں اور اداروں کو سرکاری تحویل (نیشنلائزیشن) میں لینا، ایٹمی دھماکے کے بعد غیر ملکی کرنسی اکائونٹس منجمد کرنا، طویل عرصے تک آمروں کی حکمرانی اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینا شامل ہیں۔ آج بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے ہمیں ایک قوم بنانے کے بجائے لسانیت اور فرقہ واریت میں تقسیم کردیا ہے جس کے باعث ملک میں دہشت گردی کو فروغ ملا، اس کے باوجود ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے ملک کی ترقی کے سفر پر فخر کرنا چاہئے۔ آیئے آج ہم تجدید عہد وفا کریں کہ بابائے قوم کے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کریں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ شخصیات غلطیاں کرسکتی ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں ملک ایسی غلطیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا جو اِسے کئی دہائیاں پیچھے لیجائیں۔ پاکستان کو آزاد، خود مختار اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کیلئے ہمیں قائداعظم کے سنہری اصولوں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کو اپنانا ہوگا بصورت دیگر آنیوالی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

تازہ ترین