• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے اپنی آزادی کے 70سال مکمل کر لئے ہیں یہ قوموں کی زندگی کا ایک بڑا عرصہ ہے ۔ اگر ہم اپنے ان سات عشروں کے تاریخی سفر کا دیگر اقوام سے موازنہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم آزادی کا مقصد حاصل نہیں کر سکے ہیں ۔اب سے پہلے ہر یوم آزادی پر عظیم شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’’ صبح آزادی ‘‘ یاد آتی تھی جو انہوں نے آزادی کے ڈیڑھ عشرے بعد لکھی تھی ۔’’ یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر ۔ وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں … نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ۔ ‘‘ لیکن 71 ویں یوم آزادی پر اگرچہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں منزل تک پہنچنے کے لئے ابھی بہت چلنا ہے تاہم منزل کا نشان نظر آنے لگا ہے ۔ پاکستان کی عدلیہ کے حالیہ فیصلے کی وجہ سے امید کی کرن نظر آ رہی ہے ۔
گزشتہ 70برس کے دوران، بیورو کریسی ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نمائندےسیاست دان اور نام نہاد دانشور باری باری حکومت کرتے رہے ہیں اور ان کے مضبوط اتحاد کی وجہ سے ملک میں جمہوریت اور منصفانہ نظام پنپ نہیں سکے ہیں۔ ابتدا سے یہ لوگ وسائل اور دولت پر قابض ہیں اور کسی ایک کا چہرہ سیاہ ہونے پر دوسرے کو آگے لے آتے تھے۔ پاکستان کے عوام کی جمہوری تحریکیں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ان لوگوں نے جمہوری تحریکوں کو ہائی جیک کیا اور ایسے ہر شخص کو اپنے راستے سے ہٹا دیا ، جو ہیئت مقتدرہ کے مفادات یا ایجنڈے سے مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔ حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور بینظیر بھٹو اسکی مثالیں ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کا کھیل بھی اس کے کنٹرول میں تھا لیکن پاناما کیس میں عدلیہ نے جو فیصلہ دیا ہے ، اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ ماضی کے فیصلوں سے مختلف ہے۔ یہ عدلیہ مختلف ہے۔ اب قانون کی حکمرانی ہے ۔ اسی عدلیہ نے پہلے کبھی میاں محمد نواز شریف کے خلاف فیصلہ نہیں دیا کیونکہ میاں محمد نواز شریف ایسی شخصیت ہیں ، جنہوں نے طویل عرصے تک ہیئت مقتدرہ کے سیاسی چہرے کے طور پر کام کیا ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا پاناما کیس کا فیصلہ اس امر کا بھی اظہار ہے کہ عدلیہ اور فوج ایک مختلف کردار کے ساتھ سامنے آئے ہیں ۔وقت بدل گیا ہے۔ سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا بڑا طاقتور ہو رہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کو درپیش خطرات اور بحرانوں کی وجہ سے دونوں اداروں کیapproach ( اپروچ ) تبدیل ہو گئی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہے ہیں ۔ پرانی صف بندیاں ٹوٹ رہی ہیں ۔ آج کی عدلیہ اور افواجِ پاکستان وطن کی محبت سے سرشار ہیں۔ کھوئی ہوئی طاقتیں اپنے آپ کو از سرِ نوجمع کر رہی ہیں اور نئے نعرے دے رہی ہیںمگر پرانے حربے اور ہتھکنڈے کارگر نہیں رہے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت سڑکوں پر ہے ۔ انکا بیانیہ بدل گیا ہے مظلومیت سے انقلاب اور آئین بدلنے پر میاں محمد نواز شریف عوام سے سوال کر رہے ہیں کہ ’’ مظلوم کا ساتھ دو گے ؟ ‘‘ صرف میاں محمد نواز شریف سے ہی پرانے اتحادی لاتعلق نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان لسانی ، مذہبی اور مسلکی قوتوں ، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں پر بھی ان کا انحصار پہلے کی نسبت بہت کم ہو گیا ہے ۔ میاں نواز شریف جی ٹی روڈ کے سفر میں مختلف اجتماعات سے خطاب کے دوران یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ سازش ہو رہی ہے سازش کس نے کی وہ نہیں بتاتے بلکہ ان کا واضع اشارہ عدلیہ کی طرف ہے لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پاناما کیس میںعدلیہ کا کیا قصور ہے آپ نے نہ عدلیہ کو مطمئن کیا متعدد وکلا اور آپ میں سے کسی نے سوالوں کا جواب نہیں دیااب میاں نواز شریف کیساتھ وہ سیاسی قوتیںبھی نہیں ہیںبلکہ انکی پارٹی کی اکثریت بھی شامل نہیں ہے جو روایتی طور پر جمہوری تحریکوں میں ہر اول دستے کے طور پر شامل رہی ہیں یا روایتی طور پرجمہوریت کے لئے جدوجہد کرتی ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف اپنے طور پر پاکستان کی ’’ حقیقی مقتدرہ ‘ کے خلاف جو ’’ عوامی تحریک ‘‘ چلا رہے ہیں ، اس میں وہ تنہا ہیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی مقتدرہ کی وہ ترکیب نہیں رہی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی تحریک عوامی نوعیت کی ہے ۔ خود میاں محمد نواز شریف یہ نہیں جانتے کہ وہ کس کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن انکا اور وہ ساتھی جو انکے ساتھ آ رہے ہیں انکے مقاصد بالکل عیاں ہیں۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا 1948 سے ملک میں جاگیردار، سرمایہ دار اور بیوروکرسی باری باری حکمرانی کرتے رہے ہیں اب institutional dialogueاسی کی تازہ کڑی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے کل کہ جلسے میں اس تجویز کی حمایت کی ہے۔
پاناما کیس میں عدلیہ کے حالیہ فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں فوج کی سیاست میں مداخلت کا بھی کوئی امکان ابھی تک نظر نہیں آتا اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما یقین کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ پاکستانی عدلیہ کے لئےبھی یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنے اس فیصلے کے بعد اپنے آپ کو ماضی کی عدلیہ کے ساتھ نتھی کرے ۔ وہ اس تاثر کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اسے ماضی کی عدلیہ کے ساتھ جوڑا جائے ۔آج عدلیہ ہمارہ قومی غرور ہیں اور آج کی عدلیہ پر قوم بجا طور پر ناز کر سکتی ہے۔ حالات میں تبدیلی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان کی نئی نسل زیادہ باشعور اور پرانے ’’ رولز آف گیم ‘‘ غیر موثر ہو چکے ہیں ۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہے ۔ یہ ساری جدوجہد لوگ پوچھتے ہیں کہ پھر کیوں ہے؟ یہ کیا اس لئے ہے کہ NAB کہ کیس نہ کھولے جائیں ان سے اور انکے ساتھیوں سے حساب نہ لیا جائے ۔مگر عدالتی فیصلہ بدلے گا اور نہ ہی NAB کے مقدمات رکیں گے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ احتساب کا عمل میاں محمد نواز شریف سے شروع ہوا ہے ،جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی محاذ کے انتہائی اہم رہنما تھے اور گذشتہ 35 سالوں سے جن کے ہر کام پر چشم پوشی کی گئی ۔ یہ بھی درست ہے کہ سب کا احتساب ہونا چاہئے لیکن جن لوگوں نے طویل عرصے تک اس ملک کے وسائل کو لوٹا ہے ، وہ اب پارلیمنٹ ، جمہوریت اور اداروں کے نام پر اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانا چاہتے ہیں ۔ اس مرحلے پر سینیٹ کے چیئرمین اور میرے انتہائی قریبی دوست میاں رضا ربانی نے فوج ،عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان ڈائیلاگ شروع کرنے کی تجویز دی ہے ، وہ حیرت انگیز ہے ۔ میاں رضا ربانی پاکستان کے موجودہ حالات کو 1970 اور 1990ء کے عشروں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ پرانی صف بندیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ حزبِ اختلاف کی بڑی توانا آوازتحریکِ انصاف اور عمران خان کی ہے جنہوں نے status quo توڑنے کی بات کی ہے وہ آج opposition کی سب سے بڑی آواز ہے۔
پارلیمنٹ میں عدوی طور پر چھوٹی مگر دراصل ملک کی آج سب سے بڑی پارٹی ہے۔اب کسی نام سےstatus quoقائم نہیں رہ سکتا ہے۔ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اداروں کے درمیان ’’ ڈائیلاگ ‘‘ نہیں ہوتا ۔ ڈائیلاگ صرف سیاسی قوتوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ سیاسی قوتیں دائیں اور بائیں بازو کی بھی ہو سکتی ہیں ۔ روشن خیال اور انتہا پسند بھی ہو سکتی ہیں ۔ بالائی اور نچلے طبقات کی نمائندہ بھی ہو سکتی ہیں ۔ مختلف قوموں اور گروہوں کی نمائندہ بھی ہو سکتی ہیں ۔آج اداروں کے مابین ’’ ڈائیلاگ ‘‘ صرف ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار رکھنے کے لئے ہوگا ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں اس طرح کے ڈائیلاگ کی ایک آدھ مثال ہو گی لیکن اس ڈائیلاگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے ۔ یہ ’’ یوٹوپیائی ‘‘ تجویز ہے ۔ اسٹیٹس کوبرقرار رکھنے سے لوگوں کی بہتری نہیں ہو گی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنے کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ اس عمل کو نہیں روکنا چاہئے اور نہ روکا جا سکتا ہے۔ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے سے مستقبل کی قوتوں کا راستہ رک جاتا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ پہلے سے بہت مختلف ہے ۔ یہ پہلے سے تیز سفر ہے ۔ نجات دیدہ و دل کی گھڑی کبھی بھی آ سکتی ہے ۔

تازہ ترین