• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستر برس سے چلتا جارہاہوں پاکستان نہیں آیا، کتنا دور ہے میرا وطن، مزید کتنا سفر طے کرنا پڑے گا، کوئی تو مجھے بتائے مجھے منزل کب حاصل ہوگی۔ اب میں نحیف ہوگیاہوں، میری سانسیں اکھڑ جاتی ہیں، جسم میں توانائی نہیں رہی نہ ہی چہرے پر رعنائی مگر میں نے ہمت نہیں ہاری، اپنے جذبے کوماند نہیں پڑنے دیا، ارادے کو ٹوٹنے نہیں دیا اور حوصلہ نہیں ہارا۔ میں نے کبھی شجر جمہوریت کی چھائوں تلے پڑائو کیا تو کبھی طوفان آمریت کے تھپیڑے کھائے، کبھی کرپشن کی بھٹی میں جھونکا گیا تو کبھی لاقانونیت کی سرد راتوں میں سرتاپا برہنہ کر دیا گیا۔ کبھی میرے گلے میں دہشت گردی کا طوق ڈالا گیا،کبھی ہاتھوں میں مفلسی کی ہتھکڑیاں تو کبھی پائوں میں مذہبی و لسانی تعصب کی بیڑیاں مگر میں ان سب کو توڑ کر چلتا رہا ،چلتا رہا کہ منزل قریب ہے جسے پانے کے بعد میرے سب غم غلط ہوجائیں گے۔ میں ایک امید لے کرچلا تھا، میرے کانوںمیں آزادی کا رس گھولا گیا تھا اور ایک نئے ’’پاکستان‘‘ کی بصیرت تفویض کر دی گئی تھی۔ قافلے لُٹ رہے تھے، مائوں، بہنوں کی عزتیں پامال ہورہی تھیں، بچے خنجروں اور برچھیوں پر ٹانک دیئے گئے تھے مگر میں خوف زدہ نہیں ہوا اور واپسی کاراستہ اختیار نہیں کیا ۔ میں سات دہائیوں سے چلتا جارہا ہوں ، ہر دہائی نے میری کمر پر ایک صدی کا بوجھ لادا اور میں سات صدیوں کابوجھ اٹھا کر پاکستان کے راستے پر رواں دواں ہوں، اب تو سستانے کو ماں کی گود بھی میسر نہیں، میری کمرجھک گئی ہے، میں تھک گیا ہوں مگر ہمت نہیں ہاری۔ کوئی بتائے گا مجھے مزید کتنا چلنا پڑے گا؟
میں اجالوں کے سفر پر حکمرانی کاخواب لے کر نکلا تھا مگر محکوم کا محکوم ہی رہا۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو جناح اور اقبال کا خواب تھا۔ پچاس کی دہائی میں یقین ہو چلا تھا کہ ہمارا کمزور انفراسٹرکچر جلد اپنے پائوں پر کھڑاہو جائے گا، معیشت مضبوط ہوگی اورملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا مگرچشم فلک نے دیکھا کہ ہم گراوٹ کا شکاررہے۔ آج ہمارے پاس فیکٹریاں ہیں،مربوط آبی نظام ہے۔ ہم ایٹمی قوت ہیں، اقتصادی طورپر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں مگر کون سی ترقی؟ کیا نسل در نسل مقروض قوم بھی کبھی ترقی کرسکتی ہے۔ ہمارے ہم سفر چین، کوریا اور ملائیشیا کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگرہم کھوکھلے نعرے لگانے والے تماشائی ہی رہے۔ ہم غربت، بے روزگاری اور ناانصافی کا ڈھول پیٹ کر منادی کرتے رہے مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ پاکستان ناکام ریاست نہیں مگر آپ اس سے اتفاق کریں نہ کریں ہم بحیثیت مجموعی ناکام لوگ ہیں۔ ہم نے آدھا ملک گنوایا، عالمی سیاست میں ہماری کوئی وقعت نہیں، ہمارے نام کوئی سائنسی ایجاد نہیں، تحقیق و تخلیق کی فہرست میں ہم دو ر دور تک دکھائی نہیں دیتے، کھیلوں کے میدان ویران ہیں، ہم بالواسطہ طورپر روس کو شکست دینے کے تو دعوے دارہیں مگر ڈیورنڈ لائن پر ناکامی نے ہمارے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ بہترین نہری نظام اور زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس برآمد کرنے کے بجائے درآمد کررہے ہیں۔ کرپشن کے کیچڑ نے ہمارے اجلے پیرہن کو داغ دار کر دیاہے۔ ہم مسلم بلاک بنانے چلے تھے مگر برادر اسلامی ملکوں کو اپنے خلاف کرلیا۔ ہماری بیشتر آبادی اب بھی ضروریات زندگی کو ترس رہی ہے، کیا اسے کہتے ہیں پاکستان؟
اگرچہ میں تھک گیا ہوں مگر میرا ایمان ہے کہ میں پاکستان ضرور پہنچوں گا۔ ایسا پاکستان جہاں عدل و انصاف کی فراہمی میرے دروازے پر ہوگی، جہاں کوئی بچہ بھوکا نہیں سوئے گا، جہاں سب کو صحت و تعلیم کی یکساں سہولتیں میسر ہوں گی، جہاں دنیا ہماری دوستی پر نازاں اور دشمنی پر خائف ہوگی، ریسرچ اور ٹیکنالوجی کے ذریعے میرا نوجوان انسانیت کی فلاح کے لئے کام کرے گا، جہاں نفرتوں کے بادل چھٹ چکے ہوں گے، جہاں حکمراںاور عوام میں فاصلہ نہیں ہوگا۔میرا پختہ یقین ہے میں ایک ایسی ریاست پالوں گا جو عمرؓ بن خطاب کی فلاحی ریاست جیسی ہوگی جہاں ادارے اوران سے جڑے افراد فرض شناس ہوں گے۔ جہاں امن کا دور دورہ ہوگا، جہاں ظالم کی گردن دبوچی جائے گی اور مظلوم کی داد رسی ہوگی، جہاں حق دارکا حق نہیں مارا جائے گا اور جہاں حکمران اللہ کے بعد اس کے بندوں کے سامنے جواب دہ ہوگا۔
یقیناً مجھے میری منزل حاصل ہوگی مگر میں جانتا ہوں کہ منزل کبھی کشکول میں نہیں ملتی، اس کے لئے جہد مسلسل درکار ہے۔ منزل خون بھی مانگتی ہے ، پسینہ بھی، بدقسمتی سے میں نے جہد مسلسل کے بجائے شارٹ کٹ اختیار کرنے کی کوشش کی میں اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے سیاست دانوں اور اداروں کو کوستا رہا، اپنی کاہلی، غفلت اور بددیانتی کے نتائج بھی حکام کے کھاتے میں ڈالتا رہا۔ جس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے میں نے رتی بھر اس کے لئے کاوش نہیں کی۔ بطور ایک اکائی میرا اپنا ضمیر سوچکا ہے، میں خود غرضی اور لالچ کا اسیر ہوں، یک جہتی اور یگانگت کے بجائے میں نے تفریق کا راستہ اپنایا۔ میں نے اپنے حقوق پر تو نظررکھی مگر فرائض سے جی بھر کر غفلت برتی۔ میں نے انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا۔ ملکی معاملات کی بہتری میں حصہ ڈالنے کے بجائے فروعی معاملات میں الجھا رہا۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالتا رہا مگر اپنے گریبان کی میل صاف نہ کی۔
انتخابات کے دوران ووٹ ڈال کر ہمیشہ ان نمائندوں کو منتخب کرتا رہا جو ستر برس سے جونکیں بن کر ملکی معیشت کو چوس رہے ہیں میں چہرے بدلتا رہا مگر نظام بدلنے کی صدا کبھی بلند نہ کی۔ میں اس استحصالی نظام کا شکار نہیں بلکہ اس نظام کا مجرم ہوں، یہ خاردار پودا میں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا اور اب خود ہی اس کے کانٹوں کی شکایت کررہا ہوں۔ میں انتخابات میں محض نان اور بریانی پر بکتا رہا اور اپنا قیمتی ووٹ رسہ گیروں کی جھولی میں ڈالتا رہا۔ میں اب سمجھ چکا ہوں کہ مجھے میرا پاکستان کیوں نہیں ملا۔ یہ درست ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہونا چاہئے مگر یہ بھی لازم ہے کہ باسٹھ تریسٹھ کی شق نیچے سے شروع ہونی چاہئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے دامن میں دنیا بھر کی غلاظت سمیٹ کر صاف ستھرے کردار کے مالک صادق اور امین حکمراں تلاش کروں۔ جناحؒ اور اقبالؒ کا پاکستان پانے کے لئے مجھے اپنے اندر کی منافقت اور دوغلا پن ختم کرنا ہوگا۔ مجھے خود صادق اور امین ہونا ہوگا۔ مجھے اپنے گندے کپڑے دوسرے کے گھاٹ پر دھونا بند کرنا ہوں گے، انفرادی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اپنے اندر دور تک جھانکنا ہوگا، جب میرے اندر کی شاہراہ پاکستان میں داخل ہو جائے گی تو آئین پاکستان پر بھی عمل ہو جائے گا اور مجھے میرا پاکستان بھی ضرور مل جائے گا، مجھے یقین ہے پاکستان کہیں میرے اردگرد ہی ہے۔ آج سترویں یوم آزادی کے وقت بھی میں قید ہوں۔ آزاد ہونا چاہتا ہوں اپنے اندر کے کھوٹ سے مگر یہ میرا المیہ ہے کہ چاہتا کچھ ہوں اورکرتا کچھ ہوں۔
ہم میں سے ہر شخص آج کے روزسعید اگر یہ عہد کرے کہ وہ جو کہے گا اس پر عمل بھی کرے گا، اوروں کو نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا آپ سدھارنے کا عزم تازہ کرتا رہے گا، اپنے دل کو کھوٹ سے پاک کرکے اصل اور حقیقی پاکستان کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالے گا تو ہماری منزل قریب بہت قریب آجائے گی۔

تازہ ترین