• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو قائم ہوئے 70 سال ہوگئے، اِن 70 سالوں میں پاکستان بہت نشیب و فراز سے گزرا ہے، قائداعظم پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد ہی رحلت فرما گئے، پھر لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا، مخلص سیاستدانوں کو اقتدار سے بیدخل کردیا اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرلی۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ بیورو کریسی جس کے ساتھ پاس طاقت نہیں وہ حکمران ہوسکتی ہے تو وہ کیوں نہیں، چنانچہ وہ 8 اکتوبر 1958کو مارشل لا لگا کر 27اکتوبر 1958کو مطلق النان حکمران بن گئے، دس سال انہوں نے حکمرانی کی پھر جنرل محمد یحییٰ خان حکمران بن گئے اور 1971 میں ملک دولخت ہوگیا۔ یوں پھر تین اور مارشل لاء لگے جس سے سیاستدانوں کو یقین ہوگیا کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلیں طاقت کے بل پر کوئی نہ کوئی ان پر مسلط رہے گا، سیاستدانوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل نہ بنا سکے اور مناسب وقت پر فیصلہ کرنے سے عاری رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور ایک متلاطم دور تھا، وہ ایک اچھے حکمراں مگرسندھ میں انصاف نہ کرسکے، اس لئے ایک متحرک اور مستعد گروپ اُن کا مخالف رہا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنا پر امریکہ کے کہنے پر ہٹائے گئے، پاکستان کے معاملے میں امریکی مخالفت عروج پر تھی، ایوب خان 1962 میں بھارت پر چین کے حملے کے وقت کشمیر پر قبضہ نہ کرسکے، جس کی وجہ سے انہیں 1965ء کی جنگ کرنا پڑی۔ جیت اور ہار کی صورتِ حال سے دوچار ہوئے، جیت تو اس وجہ سے کہی جاسکتی ہے کہ بھارت کے حملے کو ناکام بنایا اور اُسے لاہور پر قبضہ نہ کرنے دیا، دوارکا کا اڈہ تباہ کیا اور سمندری و فضائی حدود پر حکمرانی کرتے رہے اور زمین پر چونڈہ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں بڑی جنگ لڑی اور بھارت کو اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیا، اس کے بعد 1971ء میں پاکستان سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا، ذوالفقار علی بھٹو بہت متحرک اور ایٹمی پروگرام کے خالق کو پھانسی دے دی گئی ، اس ایٹمی پروگرام نے کئی اور کو بھی سزا کے مرحلے سے گزارا تاہم پاکستان 1984 میں ایٹمی قوت بنا اور اس کا اظہار 28مئی 1998 میں میاں محمد نواز شریف نے دھماکہ کرکے پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کی سزا اُن کو پرویز مشرف نے اِن کو گرفتار کرکے دی، مگر اس میں کئی اور مسئلے بھی تھی، پاکستان کے سیاستداں جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں مگر وہ خود بھی آمر مطلق بننا چا ہتے ہیں، شاید اس لئے کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو وہ ہٹا دیئے جائینگےجبکہ ہٹانے کی وجہ پھر یہی بنتی ہے۔ 70سالوں میں پاکستان کا سیاستداںاور پاکستان کے ادارے اپنی حدود کا تعین نہ کر پائے کہ انہیں کہاں رک جانا ہے اور کہاں اُن کو آگے بڑھنا ہے اس وجہ سے ذاتی معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ بعض دانشوروں کی یہ رائے ہے کہ اِس ملک کو ایسے ہی چلنے دیا جائے جیسا کہ اس وقت چل رہا ہے مگر میرے خیال اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا ملک کو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت، میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس ہے اور اپنی سرحدوں کو خاطرخواہ طور پر محفوظ بنا چکا ہے تو اس کے بعد سیاسی محاذ آرائی یا چھوٹی موٹی ہنگامہ آرائی کی گنجائش موجود ہے اور اس میں اگر سپریم کورٹ کرپشن روکنے کے لئے مقدمات کرےتو یہ جمہوریت کی بڑی خدمت ہے، تاہم یہ بات بھی ذہن نشین کرنا چاہئے کہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جو ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔
پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں بات کرتے ہوئے ایٹمی کمیشن کے ترجمان ڈاکٹر شاہد ریاض نے کہا ہےکہ پاکستان 70سال کے عرصے میں مشکلات اور پرخار راستوں سے گزرا ہے مگر اس کے باوجود اس نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ ایٹمی شعبے میں پاکستان کی مہارت اور کارکردگی ضرب المثل ہے۔ یہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس پروفیسروں، دانشوروں اور ایٹمی سائنسدانوں پر مشتمل تھی، ڈاکٹر طلعت وزارت نے کہا ہمارے کچھ اداروں نے اپنے اپنے میدانوں میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے، اگرچہ ہم اپنا سیاسی نظام مستحکم نہ کرسکے جبکہ سیاسی نظام اداروں کو مستحکم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ وائس ایڈمرل آصف ہمایوں کا کہنا تھا کہ جہاں ہم نے زمینی حدود مشرقی پاکستان کی صورت میں گنوائی مگر سمندری حدود میں اضافہ کیا ہے۔ آزادی کے وقت ہماری سمندری حدود 4میل تھی جو بڑھ کر اب 350 میل تک پہنچ چکی ہے، جو خطے میں تمام ملکوں سے زیادہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد کا کہنا تھا بدعنوانی ایسا مسئلہ ہے جو ہر شعبے میں موجود ہے، ہم صرف سیاستدانوں کی بات کرتے ہیں مگر ہمیں ہر اس ادارے کے خلاف کام کرنا ہوگا جو بدعنوان ہے۔ اس حوالے سے سابق ممبر ایٹمی کمیشن انجینئر نے کہا کہ 70کے عشرے میں ایٹمی شعبے پر جو پابندی لگی تو ہمیں ایٹمی پاور پلانٹ چلانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا مگر اس پر ہم نے نہ صرف قابو پایا بلکہ مہارت حاصل کی۔ اب توپاکستان خود اپنے پاور پلانٹس بنانے لگے گا۔ اس وقت پاکستان ایٹمی تعاون کمیشن توانائی، زراعت اور دفاعی شعبوں میں قابل قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس گول میز کانفرنس میں کموڈور سید عبیداللہ نے کہا کہ پاکستان کے عوام بہت محنت کش اور ذہین ہیں، ہر میدان میں اپنا سکہ جما رہے ہیں اور اس لئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ارضیات کی ماہر ڈاکٹر سیما ناز صدیقی نے کہا کہ وہ یہ بات جانتی ہیں کہ ہر موسم کا حامل ملک پاکستان معدنی دولت سے مالامال ہے۔ ڈاکٹر محبوب حسن مقدم نے طویل مقالےمیں کہا کہ سی پیک کی وجہ سے ہمیں قدرے مشکلات تو ہوں گی مگر جلد ہم اُن مشکلات پر قابو پا کر اپنا مستقبل تابناک بنا لیں گے۔ ڈاکٹر شجاعت حسین کا زور سیاسی نظام کو مستحکم کرنے پر تھا کہ اس کو مستحکم کئے بغیر استحکام کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور اُس کے عظیم تر بننے کے قوی امکانات ہیں۔ گول میز کانفرنس میں کراچی کے اہم پروفیسر حضرات نے شرکت کی جس سے پاکستان کے مستقبل کو تابناک بنانے کی اُمید پیدا ہوئی ۔

تازہ ترین