• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ممنون حسین اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یوم آزادی پر اپنے پیغامات میں قوم کو باہمی آویزشوں، نفرتوں اور بدگمانیوں کو بھلا کر اتحاد و یک جہتی کی راہ اپنانے کی جو تلقین کی ہے وہ پاکستان کو درپیش موجودہ مختلف النوع اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی اور اس پرعمل درآمد وقت کی اشد ضرورت ہے۔ صدر مملکت نے درست کہا کہ وطن کو آج جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان کے پیش نظر ضروری ہے کہ مسائل کا غیر جذباتی طریقے سے جائزہ لیا جائے اور ملک میں اعتدال اور معقولیت کو فروغ دیا جائے۔ قوم آئین پاکستان پر متحد ہو جائے اور اس کی حفاظت اور پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم نے بھی کہا کہ ہم میں کئی طرح کے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن قومی مفاد کی بالادستی اور ناقابل تسخیر دفاع پوری قوم کا مشترکہ نصب العین ہے۔ ہمارا مشن تمام اداروں کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ آئین و قانون کی حد میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واہگہ بارڈر پر قومی پرچم لہرانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بے تحاشا اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے مگر آج پاکستان آئین و قانون کے تحت آگے بڑھ رہا ہے۔ کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو پاک فوج اور تمام ادارے سیسہ پلائی دیوار بن کر اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے دہشت گردوں کو چن چن کر ماریں گے اور وہ دن دور نہیں جب ہم ملک کو قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنا کر دم لیں گے۔ ملک کے سیاسی وعسکری قائدین کے یہ جذبات پوری قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن قوتیں ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دبائو بڑھا رہی ہیں۔ دہشت گردی پر ہم نے بڑی حد تک قابو پا لیا ہے مگر عسکریت پسندی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔ دہشت گرد آج بھی ہمارے پرامن شہروں کو نشانہ بنا رہے ہیں ان کا اصل ہدف سیکورٹی فورسز ہیں جن پر حملوں کے دوران بے گناہ شہریوں کا خون بھی بہایا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد، سیاسی خلفشار نے لوگوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور ملکی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں قوم کا فکر مند ہونا فطری امر ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ سیاسی ہی نہیں عسکری قیادت بھی آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور ریاست، اس کے نظام اور ملکی دفاع کیلئے پوری طرح چوکس ہے۔ ماضی میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ مسلح افواج ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے عزائم خاک میں ملانے کیلئے ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔ آرمی چیف نے اس حوالے سے دشمن کو خبردار کیا ہے کہ تمہارا بارود اور گولیاں ختم ہو جائیں گی مگر ہمارے جوانوں کے سینے ختم نہیں ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ملکی استحکام کے لیے آرمی چیف بار بار آئین و قانون کی عملداری کی بات بھی کر رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قوموں کی زندگی میں مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب قانون اور نظم وضبط توڑا جاتا ہے۔ آئین کسی قوم کو ایک نظام، ایک ضابطے کے تحت اپنے معاملات چلانے کی راہ دکھاتا ہے اور آئین کی روشنی میں مدوّن ہونے والے قوانین اس کے افراد کی زندگی میں ڈسپلن پیدا کرتے ہیں۔ جب ادارے آئین اور افراد قانون توڑتے ہیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، وہی معاشرہ کامیاب کہلانے کا مستحق ہے جو آئین و قانون کی سختی سے پاسداری کرتا ہے۔ ملک میں اس وقت اگرچہ عام انتخابات قریب آنے کی وجہ سے سیاسی ہلچل زوروں پر ہے مگر اسے قانونی حدود کے اندر رکھنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں اور بالغ نظر سیاستدان جمہوری رویوں میں بلوغت اور پختگی پر زور دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنی سرگرمیوں کو قانون کے دائرے میں رکھیں اور اقتدار کی سیاست کو قومی اقدار کے تابع بنائیں۔ تمام ریاستی ادارے آئین و قانون کے اندر رہ کر اپنے فرائض انجام دیں کیونکہ قوم کا مستقبل آئین و قانون کی پاسداری سے وابستہ ہے۔

تازہ ترین