• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انوا ر کاکڑ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر گفتگو کرتے ہیں۔ حکومت ِ بلوچستان کا ترجمان ہونے کے باوجود وہ اس بات کے قائل ہیں کہ اداروں کا احترام ہر حال میں کرنا چاہئے۔ 12اگست کی شام انوار کاکڑ نے چند صحافیوں کو کھانے پرمدعو کر رکھا تھا۔ کھانے کی میز پر جب علیحدگی پسندوں کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی عین اسی وقت کوئٹہ میںدھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کی تیز آواز سنی گئی پھر پتا چلا کہ وطن کے لئے کچھ لوگ شہید ہوگئے۔ کچھ اس ماں دھرتی کی محبت میں زخمی ہوگئے ہیں۔ اس دھماکے سے ذرا پہلے انوارکاکڑ کہہ رہے تھے کہ..... ’’فرقہ وارانہ فسادات کرنے والوں کو تو دہشت گرد کہا جاتا ہے مگر پتا نہیں کیوں پاکستان کے سیاستدان اور دانشور علیحدگی پسندوںکو ناراض بلوچ کہتے ہیں حالانکہ وہ دہشت گرد ہیں، انہیں ناراض نہیں دہشت گرد کہنا چاہئے کیونکہ وہ ہیں ہی دہشت گرد جو کوئی بھی ہماری ریاست کو نہیں مانتا، ہمارے ریاستی اداروں کو نہیں مانتا، ہمارے آئین کو نہیں مانتا، وہ دہشت گرد نہیں تو اور کیا ہے؟.....‘‘ بلوچستان کے کسی ذمہ دار شخص کی طرف سے ایسی گفتگو میرے نزدیک خوش آئند ہے، ہمیں اپنےملک دشمنوں کو ہمیشہ دہشت گرد ہی سمجھنا چاہئے۔
کوئٹہ میں 12اگست کی شام اُداس تھی۔ وطن دشمنوں نے دھماکہ کر دیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ کوئٹہ میں آزادی کا بڑا پروگرام نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کوئٹہ میں آزادی کے تمام پروگرام ہوئے۔ ان پروگراموں میں لوگوں کے جذبے جوان تھے۔ وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ کوئٹہ میں یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ہم 12اگست کی سہ پہر آئے۔ اسلام آباد سے کوئٹہ سید علی عمار میرے ہمسفر تھے۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران بھی ان سےملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ علامہ افتخار نقوی کے صاحبزادے علی عمار نہ صرف پڑھے لکھے ہیں بلکہ اعلیٰ تربیت یافتہ بھی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار نقوی کو مبارک ہو کہ ان کے صاحبزادے سعادت مندی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کے قائل ہیں۔
12اگست کی رات میاں نواز شریف نے لاہور میں تقریر کی پرانی باتوں کے ساتھ انقلابی باتیں بھی شامل کرلیں۔ نئے آئین کی باتیں بھی شروع کردیں۔ لاہور میں جو لوگ مینار ِ پاکستان کے بجائے داتا دربار کے باہر سڑک پر جلسہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس سیاسی طاقت کم ہے۔ میں ابھی پنجاب پولیس کی اُن بسوں کی تصاویر دیکھ رہا تھا جن میں پولیس اہلکار سفید کپڑے پہن کر ’’مسلم لیگی کارکن‘‘ بنے بیٹھے تھے۔ ابھی ان تصویروںکا جائزہ لے ہی رہاتھا کہ نیویارک سے مسلم لیگ (ن) امریکہ کی رہنما محترمہ نگہت خان کا فون آگیا۔ کہنے لگیں ’’میں پاکستان سے محبت کرتی ہیں۔ پاکستان کے تمام اداروںکا احترام کرتی ہوں۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں ملک سے محبت ہونی چاہئے۔ پاکستان ہمارا وطن ہے۔ ہماری ماں دھرتی ہے۔ ماں دھرتی پر جان قربان، میں نے زندگی میں کبھی ماں دھرتی پر لیڈر کو ترجیح نہیں دی۔ اگر لیڈر نااہلیت کے بعد ملکی اداروں کے خلاف باتیں کر رہا ہے تو ہمارا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ادارے ہماری سلامتی کے ضامن ہیں‘‘ میں ان کی باتیں سن کر حیران تھا۔ اسی لئے میں نے پتا ہونے کے باوجود اُن سے پوچھا کہ ’’آپ نگہت خان ہی بول رہی ہیں؟‘‘ اس پر انہوں نےکہا ’’جی میں نگہت خان ہی بول رہی ہوں۔ اگر کوئی لوگوںکو ملکی اداروں کے خلاف اُکساتا ہے تو ہم اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ میں ہر اس عمل کے خلاف ہوں جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے ہو۔ ہمیں ایک مستحکم پاکستان چاہئے‘‘
میاں نواز شریف سے متعلق آپ اتنا تو جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت ان کے ساتھ کہیں نظر نہیں آئی۔ پرویز مشرف گروپ سی کے نمائندے ضرور نظر آئے۔ آج ایک پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے، لکھ دیتا ہوں۔ آپ کو یہ تو پتا ہے کہ میاں نواز شریف معاہدہ کرکے سعودی عرب گئے تھے مگر یہ واقعہ اس دور کا ہے جب وہ واپس آچکے تھے۔ اے پی ڈی ایم کی اہم میٹنگ ہو رہی تھی، یہ اجلاس اس سلسلے میں تھا کہ اگلے انتخابات میں حصہ لیا جائے یا بائیکاٹ کردیا جائے۔ بائیکاٹ کے لئے اے پی ڈی ایم کے پاس دو نکات اہم تھے۔ ایک یہ کہ عدلیہ بحال نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ ہمیں آمر کے ہوتے ہوئے انتخابات قبول نہیں ہیں۔ نواز شریف اس اجلاس میں اہم رہنما کے طور پر شریک تھے۔ سب لوگوںکو ان سے پہلے بات کرنا تھی۔ آخر میں نواز شریف کوبولنا تھا۔ جب سب لوگ بول چکے، سب نے الیکشن بائیکاٹ کا سنا دیا اب جب نوازشریف کوبات کرنا تھی تو اس دوران ایک پرچی ان کے سامنے آئی کہ ایک طاقتور مغربی ملک کے وزیر خارجہ کا فون ہے۔ یہ چٹ ایک اہم رہنما نے دیکھ لی مگر وہ چپ رہے۔ نواز شریف چالیس منٹ بعد آئے اورکہنے لگے کہ’’آپ بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں تو کریں ہم تو الیکشن میں جارہے ہیں‘‘ یوں جو الیکشن 2008 میںہوئے ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) تو شریک ہوئی مگر اے پی ڈی ایم کی کوئی اور جماعت شریک نہ ہوسکی۔ یہ اس د ور کی بات ہے جب میاں نواز شریف اپنے ایک محسن سے کہا کرتے تھے کہ ’’میں سعودی عرب میں رہا ہوں وہاں بہت بہتر حکومت ہے۔ ویسا ہی پاکستان میںہونا چاہئے۔ وہی نظام بہتر ہے۔‘‘
میاں نواز شریف کی سوچ کہیں نہ کہیں بادشاہت پر اٹکی ہوئی ہے، اسی لئے وہ اداروں پر تنقید کررہے ہیں۔ اسی لئے وہ چاہتے ہیںکہ ان کے کاموں میں کوئی مداخلت نہ ہو، ان سے کوئی حساب نہ لیا جائے۔ شاید اسی لئے وہ جی ٹی روڈ پر دورانِ سفر ملکی اداروں پر تنقید کرتے رہے۔ اپنا قصور پوچھتے رہے، حالانکہ حساب کتاب تو مچھر کے برابر چیزوں کا بھی لیا جاتا ہے جن لوگوں کو اس کا پتا نہیں انہیں چاہئے کہ وہ ایک مرتبہ سورۃ بقرہ کو ضرور پڑھیں۔
12اگست کی شام کوئٹہ میں دھماکہ ہوا۔ 13اگست کی صبح بلوچستان کی جدید ترین یونیورسٹی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل عامر ریاض، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری اسپتالوں میں زخمیوںکی عیادت کر رہے تھے۔سہ پہر کو ملک فدا الرحمٰن کی کتاب ’’بلوچستان، عکس اور حقیقت‘‘‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ اس تقریب میں اسپیکر اسمبلی راحیلہ درانی کے علاوہ زبیدہ جلال، شمع پروین مگسی اور جوہرہ ترین سمیت کئی خواتین شریک تھیں جبکہ تقریب کے مقررین میں وزیراعلیٰ بلوچستان اور کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل عامر ریاض شامل تھے۔ سردار ثنا ء اللہ زہری اور جنرل عامر ریاض دونوں ہی بلوچستان کی ترقی کے لئے پرعزم دکھائی دیئے۔ ملک فدا الرحمٰن نے بلوچستان کے رہائشیوں کی بہت تعریف کی اور انہیں اعلیٰ ترین اور محبت کرنے والےقرار دیا۔ اس تقریب میں سرفراز بگٹی بھی تھے۔
13اور 14اگست کی درمیانی رات بھی خاصی اہم تھی۔ اس رات لوگ آزادی کے گیت گاتے رہے۔
رات کی ابتدا میں راولپنڈی میں شیخ رشید احمد اور عمران خان کا جلسہ تھا۔ اس جلسے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ملکی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 13اگست کی رات ہم بگٹی اسٹیڈیم کوئٹہ میں تھے جہاں پاکستانی فوج کے مختلف دستوں نے مہارت کے جوہر دکھائے۔ یہاں پر چینی اور مصری فنکاروں نے بھی اپنا جادو جگایا۔ 13اور 14اگست کی رات واہگہ میں بھی شاندار تقریب ہوئی جہاں جنرل قمر باجوہ نے ایشیا کا سب سے بلند ترین پرچم لہرایا۔ انہوں نے تحریک ِ پاکستان کا تذکرہ بھی کیا۔ پاکستان کی ترقی کی باتیں بھی میں۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ جو ملک اللہ اور رسولﷺ کے نام پر بنا ہو وہ قیامت تک قائم رہےگا۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ ’’پاکستان اپنےاصل راستے پر گامزن ہے اور یہ راستہ قانون اور آئین کا راستہ ہے۔‘‘
پاکستانی قوم کی اکثریت اور پاکستان کے تمام ادارے قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں جس کا یہ یقین نہیں ہے اُسے دہشت گرد نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ اصغر سودائی کا شعر ہے کہ؎
پاکستان کا مطلب کیا
لا الٰہ اِلا اللہ

تازہ ترین