• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان کے 70سال مکمل ہوئے۔ کتنی ہی مشکلات، کیسے کیسے حادثات، حصول اہداف، بڑی بڑی ناکامیوںاور عظیم کامیابیوںکا سفر اس اسلامی جمہوریہ نے طے کیا، جو ہمارے بزرگوں کی دانش و دلیل اور قلم و کلام کی کمال طاقت سے قائم ہوئی۔
اقبال کے خواب کی یہ تعبیر اور قائد کی جدوجہد کا یہ حاصل اب بڑی تگ و دو سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ملک میںآئین کی اختیاریت میں یکدم تیزی آئی ہے اور عوام دشمن طرز ِ کہن اکھڑ رہا ہے۔ قانون کایکساں نفاذ ممکن ہوتا معلوم دے رہا ہے۔ اگلے 3عشروں میں پاکستان موجود ترقی پذیر دنیا کا سب سے خوشحال، مستحکم اور پرامن ملک بنتا جائے گا(ان شاء اللہ)
اگرچہ 70سال مکمل ہونے پر پاکستان دو اطراف دشمنوں کی زد میں ہےاور بھی عالمی طاقتوںکی نظر بد ہم پر لگی ہوئی ہے۔ باقی ماندہ دہشت گردی اس کی تصدیق ہے۔ لیکن مضبوط دفاع، داخلی استحکام اور خوشحالی کے ساتھ سمت درست کرتا پاکستان جنوبی ایشیا ہی نہیں، پورے جنوب مغربی ایشیا (مشرق قریب) کا سب سے متحرک اور باہمی اقتصادی ترقی میںاعلیٰ کردار کاحامل ملک بننے کو ہے۔ یہ سفر فقط تیس سال کا سفر ہے۔ چند سالوں کی بات ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان عظیم دوست چین، روس اور اپنے شمال میں سنٹرل ایشیا کی درجن بھر سمندری سرحد سے محروم ریاستوں کی بیش بہا آسانیوں کا منبع بننے کو ہے تو دوسری جانب یہ پورے مشرق وسطیٰ، افریقہ، یورپ، ہر دو امریکہ، بحرالکاہلی خطے، مشرقی ایشیا، جنوب مشرق ایشیا اور آسٹریلیا کے لئے اسی بیش بہا لینڈلاکڈ خطے (مرکزی ایشیا) تک پہنچ کا واحد ذریعہ بننے کو ہے۔ واضح رہے کہ جمی کارٹر دور میں امریکی سلامتی کے مشیر Zbigniew Brzezinski نے سنٹرل ایشیا پر اپنی کتاب میں اس خطے کو دنیا کا سر قرار دیتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ خشکی سے گھرا یہ ہی خطہ مستقبل میں عالمی سیاست و اقتصادیت کا مرکز و محور ہوگا۔ ان شاء اللہ اسی شروع ہوئے عشرے میں پرامن مذاکرات اور عالمی برادری کے تعاون سے مسئلہ کشمیر بھی حل ہوگا۔ مصروف جہاد کشمیری حق خودارادیت حاصل کرکے سرخرو ہوں گے۔ پاکستان آئندہ ایک ڈیڑھ عشرے میں چین و روس کی تائید و حمایت سے ترکی، سعودی عرب اور ایران کے باہمی اشتراک سے مسلم دنیا کو مینج کرنے میں اہم ترین کردار اداکرنے والا ملک بنے گا۔ جس میں مملکت کے قیام کا اب شروع ہونے والا یہ عشرہ فروغ تعلیم و تحقیق ہوگا۔ قومی صحت کے اشاریے حوصلہ افزا ہوں گے۔ ٹیکنالوجی کی اختیاریت ای گورننس کا حقیقی آغاز اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں مطلوب جمہوری و سیاسی عمل تیز تر ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہونا کیسے ہونا ہو جائے گا؟ ایسے ہو جائے گا کہ پاکستان ’’آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ کی راہ پر چل پڑا ہے‘‘ عدلیہ آزاد اور فوج اپنے سیاسی رجحان کو ایک عشرہ ہوا ترک کرچکی ہے۔ ملک پہلے ہی ایک متفقہ اور اسلامی جمہوریہ دستورکاحامل ہے۔ ایسا دستور جو ہم سب کے بزرگوں نے بڑے دھچکے کھانے کے بعد کامل اتفاق سے تیار اور اسے نافذ کیا، لیکن مرضی کا اور ادھورا تاہم اب پاکستان پر مسلط وہ طرزِ کہن اکھڑنا شروع ہو گیا ہے، جس پر حکومتیں اڑی رہیں اور آئین پاکستان 1973کی راہ میں حائل رہیں۔ یوںملک میںمارشل لا نافذ ہوتے رہے اور دستور کاحلیہ بگڑتارہا۔ یہ کسی ایک دور میں بھی اپنی روح کے مطابق نافذ نہیںہوا، اور اب اس کا مکمل نفاذ روکا نہیں جاسکے گا۔ یہ وہ دستور ہے جسے پاکستان کی نیشنلسٹ، سیکولر، مذہبی، سوشلسٹ، قومی اور علاقائی سب جماعتوں نے اتفاق رائے سے تیار کیا تھا۔ اس کا قرارداد ِ مقاصد پر مشتمل دیباچہ (پری اسمبل) اور آرٹیکلز 63-62 اس کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرتی ہیں۔ ہر دو آرٹیکلز کو تمام پارلیمانی جماعتوں نے آئین کا حلیہ درست کرنے کی ساڑھے تین سالہ کوششوں میں بھی قبول کیااور اٹھارہویں ترمیم میں انہیں نہیں چھیڑا گیا۔ ان کی ایک نوعیت ہی واضح طور پر جمہوریت، حکمرانوںاور عوامی نمائندوں کے مطلوب ذمہ دارانہ طرز ِ عمل، انصاف و احتساب کی آئینہ دار ہیں۔ پھر ان د ونوں آرٹیکلز کی انسپریشن سیرت النبیﷺ سے لی گئی۔ کون ہے اس اسلامی جمہوریہ میں جو ان کی آئین سے اخراج کی جرأت کرے۔ اگر یہ انتشار اٹھارہویں ترمیم میں پیدا نہیں ہواتو یہ آئندہ بھی نہیں ہوگا، پاکستان نے ان ہی آرٹیکلز کو متحرک کرکے پہلی مرتبہ اپنے اسلامی جمہوریہ ہونے کا واضح ثبوت دیا ہے۔ جناب نواز شریف کی تاحیات نااہلی آئین میں احتساب کے اسی لازمے سےہوئی، تبھی تو ملک میں پہلی مرتبہ ٹاپ ٹو ڈائون احتساب ممکن ہوا، یہ ہوا ہے تو اب بہت کچھ واضح ہو گیا ہے۔ یہ بھی لغو ہے کہ احتساب صرف حکمران خاندان تک ہی محدود ہو گیا ہے۔ اب حکمران خاندان (وہ جتنا بھی حکمران یا حکومت پر اس کا اثر رہ گیا ہے) نے ہی احتسابی عمل بطور حکومت اگے بڑھانا ہے، نہ بڑھایا تو بیدار شہری، متحرک جماعتیں، میڈیا اور آزاد عدلیہ اور جے آئی ٹی جیسی بااعتماد اور مستعد انتظامیہ سے اس عمل کو آئین و قانون کی روشنی میں گیئر اپ کریں گی، اس سے وہ ’’سب کچھ اچھا‘‘ ہوگا جو ایک خواب کےطور پر اوپر Visualized کیا گیا ہے۔
اس حوصلہ افزا پس منظر میں سپریم کورٹ سے نااہل ہوجانے والے سابق وزیراعظم جناب میاں نواز شریف نے اس انہونی کے ہونے پرگہری مایوسی اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں نیا آئین نافذ کرنےاور انقلاب برپا کرنے کا غیرمنطقی اور تشویشناک اظہار کیا ہے۔ کیا میاں صاحب اس تاریخ سے نابلد ہیں کہ پاکستان متفقہ آئین نہ بننے سے کتنا برباد ہوا۔ جب اس کے لئے پہلے عام انتخابات 1970 ہوئے (جو تشکیل حکومت سے پہلے دستورسازی کے لئے ہوئے) تو دستور سازی کے پہلے مرحلے کے لئے منتخب اسمبلی کا اجلاس بھی نہ ہوسکا اور ملک ٹوٹ گیا۔ پاکستان کے تمام سیاسی بحران حکومتی عدم استحکام، متنازع حکومتوںاور سب سے بڑھ کر مارشل لائوں کے نفاذ کی واحد وجہ دستور کی عدم موجودگی بنی۔ پھر متفقہ آئین کی تشکیل کے باوجود اس کے نفاذ سے تمام (فوجی وسول) حکومتوںکا گریز اور مرضی کا نفاذرہا۔ آج یہ طرز ِ کہن، عدلیہ کی مدد سے اکھڑ گیا، جسے اب جوڑا نہیں جاسکتا ،یہ اب اکھڑتا ہی جائے گا اور نفاذ ِ آئین اور قانون کایکساںنفاذ بناتا جائے گا۔
میاں صاحب کوئی نیا آئین، کیا اب بن سکتاہے؟ ناممکن، بالکل ناممکن۔ یہ آگ سے بڑھ کر کھیل ہوگا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آئین پاکستان 1973کو جو اسلامی اور جمہوری ہے، جو وفاقی اور پارلیمانی اور سب سے بڑھ کر اتنی لڑتی بھڑتی قوم کی متفقہ دستاویز ہے، اسے کیسے اور کون تبدیل کرسکتا ہے؟ آپ اگر تاریخ سے اتنے ہی نابلد ہیں کہ نہیں معلوم کہ آئینی بحرانوں نے پاکستان کوکتنا برباد کیا، اسے توڑا۔ آپ اتنا تجزیہ بھی نہیں کرسکتے کہ اب اسے ختم کرکے کوئی دوسرا آئین بن ہی نہ سکے گا۔ آپ نے اتنی آئوٹ آف دی وے بات کیسے کردی؟ بلاشبہ آپ 35 سال سے اسٹیٹس کو کی سیاست میں ہی رہے اور اب اس پر احتساب و قانون کی کاری ضرب کے پہلے متاثر ہیں۔ کتھارسس کی حد تک تو درست ہے کہ آپ نے غصہ اور سمجھ میں آنے والے صدمے کو اتنا اور ایسا سیاسی غبار نکالنے میں لگا دیا۔ چلیں، اس غلط سوچ اور ارادوں کے پس پردہ کون ہے؟ جو آپ کو اتنی شہ دے رہا ہے۔ انقلاب تو اس نظام بد کے خلاف مطلوب ہے جو آپ نے آئین سے بالا بنایا اور چلایا۔ اب تو آئین کا نفاذ شروع ہو گیا۔ یہ ہی انقلاب ہے یہ آنہیں رہا، آگیا۔ تب ہی تو آپ گھربیٹھ گئے۔ آپ جنٹل مین ہیں۔ نرم ہیں۔ لیکن آپ غور فرمائیں کہ آپ بہت بھٹک چکے۔ والدہ کے قدموں میں بیٹھ کر فقط اللہ سے رجوع کریں۔ ذہن نشین رہے انقلاب کے شوق اس ملک میں بڑے بڑوںنے پالے۔ یہ جمہوری و سیاسی عمل کا ملک ہے۔ اس میں رکاوٹیں الگ بات لیکن یہ قوم انقلابی ہے نہ یہاں کبھی کوئی انقلابی آیا۔ حقیقی جمہوریت کی آمد ہی انقلاب ہے۔

تازہ ترین