• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستر سال پہلے جب ہندوستان آزاد ہوا، اور پاکستان بنا اس وقت ہم کہاں تھے؟ اور ہم نے کیا کچھ دیکھا؟ آج ہم وہ آپ کو بتانا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسلمان، بالخصوص پٹھان کتنے سادہ لوح اور کتنے بھولے بھالے ہوتے ہیں (پختونخوا کے پٹھانوں سے معذرت کے ساتھ) ہندوستان کے صوبہ یو پی میں ایک مسلم ریاست تھی رام پور۔ یہ پٹھانوں کی ریاست تھی (جو اب ضلع ہے) رام پور شہر میں مسلمانوں کی ہی اکثریت تھی۔ آزادی کے وقت نوابوں اور راجائوں کی ریاستوں کے بارے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ چاہیں تو ہندوستان میں رہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں۔ آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی نواب رام پور نے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ یہ شاید پہلی ریاست تھی جس نے اپنی حیثیت کے بارے میں فوراً ہی اعلان کر دیا تھا۔ اب بھلا ریاست کے مسلمان یہ برداشت کیسے کر سکتے تھے۔ وہ تو پاکستان کے حق میں تھے اور پاکستان کے ساتھ اپنی ریاست کا الحاق چاہتے تھے۔ انہوں نے نواب کے خلاف بغاوت کر دی۔ اب آپ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ رام پور کی ریاست پاکستان کی سرحد سے سینکڑوں میل دور تھی مگر رام پور والوں کو اس کی کہاں پروا تھی۔ وہ تو اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے اس مطالبے کے پیچھے یہ افواہ یا یہ خبر بھی تھی کہ آزادی کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان تک ایک کاریڈور بنائی جائے گی جو پاکستان کا حصہ ہو گی۔ یہ خبر کس نے دی تھی؟ یا یہ افواہ کس نے پھیلائی تھی؟ اس کے بارے میں زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایسی خبریں اور ایسی افواہیں اس زمانے میں ہر طرف اڑتی پھرتی تھیں۔ اصل میں خواہشات ہی خبریں اور افواہیں بن جاتی ہیں۔ چنانچہ ادھر ریاست کے نواب نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور ادھر سارے شہر میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ جلسے ہوئے اور احتجاجی جلوس نکلنا شروع ہو گئے۔ ہمارا لڑکپن تھا۔ وہ جلوس جس میں گولی چلی اور ایک خوبصورت نوجوان پہلی گولی کا نشانہ بنا، اس جلوس میں ہم بھی تھے مگر احتجاج کرنے والوں میں نہیں، جلوس دیکھنے والوں میں کہ ہماری عمر ہی ایسی تھی۔ یہ نوجوانوں کا جلوس تھا۔ طالب علموں کا جلوس۔ یہ بہت بڑا جلوس تحصیل کے پھاٹک پر پہنچا تو پولیس نے اس کا راستہ روک لیا۔ اب ایک طرف مشتعل نوجوان تھے تو دوسری طرف مسلح پولیس۔ یہ جوشیلے نوجوان پھاٹک کی طرف بڑھے تو ایک پولیس افسر نے گولی چلا دی۔ ہم نے پہلی بار ایک خوبصورت لڑکے کو سڑک پر تڑپتے دیکھا۔ گولی اس کے سر میں لگی تھی اور سرخ خون کے ساتھ اس کا سفید سفید مغز سڑک پر بہہ رہا تھا۔ ہم نیم بیہوشی کی حالت میں ایک دکان کے تختے پر گر گئے۔ اس کے بعد پورا جلوس بھڑکتی آگ بن گیا۔ پولیس پر حملے شروع ہو گئے۔ تحصیل کے پھاٹک کو آگ لگا دی گئی۔ اسی عمارت میں شہر کی تاریخی لائبریری صولت پبلک لائبریری بھی تھی۔ خطرہ تھا کہ بھڑکتی ہوئی آگ کہیں اس لائبریری کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ لیکن کچھ لوگوں نے اپنی جان پر کھیل کر لائبریری کی کتابیں ساتھ والی جامع مسجد میں منتقل کرنا شروع کر دیں۔ ہماری جان اس لئے بچی کہ ہمارے محلے کے ایک بزرگ یہ کہہ کر ہمیں وہاں سے بچا کر لے گئے کہ ’’تمہاری اماں بہت پریشان ہیں۔ چلو گھر چلو‘‘۔
اس کے بعد پورا شہر مشتعل لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ اب جلوس نکالنے والے نوجوان تو پیچھے رہ گئے تھے، کچھ اور عناصر نے پورے شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ جگہ جگہ آگ لگائی جا رہی تھی۔ لوٹ مار ہو رہی تھی، اب آپ کو ہم یہ بھی بتا دیں کہ اس شہر یا اس ریاست میں ہندو مسلم فساد کبھی نہیں ہوئے بلکہ اسی جلوس کے دوران میں جب ہندو دکان داروں نے اپنی دکانیں بند کرنا شروع کیں تو انہی نوجوانوں نے ان سے کہا ’’لالہ جی، ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ آپ دکان کیوں بند کر رہے ہیں‘‘ اب پورا شہر کتنے دن آگ لگانے والوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے قبضے میں رہا؟ ہمیں یاد نہیں۔ ہمیں تو یہ یاد ہے کہ ہر شام ہم اپنی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھتے تھے کہ فلاں محلے میں آگ کے شعلے نظر آ رہے ہیں اور فلاں محلے سے شور کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ہندوستان کی حکومت نے جاٹ رجمنٹ کے سپاہی وہاں بھیج دیئے۔ اس کے بعد جو قتل عام ہوا ہم نے اس کی داستانیں ہی سنیں۔ کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ اور جو بھی گھر سے باہر نظر آتا اسے گولی مار دی جاتی۔ ظاہر ہے گولی کھانے والے مسلمان تھے۔ جاٹ رجمنٹ کے قبضے میں کتنے دن وہ شہر رہا؟ ہمیں یاد نہیں۔ اس عرصے میں کتنے لوگ مارے گئے یہ بھی ہم نہیں جانتے۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس شہر کے لکھنے والوں نے اس المیے پر کوئی مقالہ یا کوئی کتاب بھی لکھی ہے یا نہیں۔ کسی نے یہ تحقیق بھی کی ہے یا نہیں کہ جلوس نکالنے والے نوجوانوں کو اکسانے والا کون تھا؟ البتہ ہمیں بہت بعد میں کسی نے بتایا کہ ان مشتعل نوجوانوں کا لیڈر رام پور چھوڑ کر پاکستان آ گیا تھا۔ اس بارے میں لاہور کے کیولری اسپتال کے علم دوست ڈاکٹر کرنل (ر) سعادت مہدی خاں کو کچھ علم ہو تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سعود الحسن خاں ایڈووکیٹ نے اس علاقے کی تاریخ اور اس علاقے کے پٹھانوں پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن اس واقعے پر بھی کچھ لکھا ہے؟ اس کا ہمیں علم نہیں۔ البتہ ہم نے اپنے افسانے ’’اپنا گھر‘‘ میں اس المیہ کا ذکر کیا ہے۔
اس وقت یہ ساری داستان بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آزادی کے وقت یا قیام پاکستان کے وقت جہاں دہلی اور مشرقی اور مغربی پنجاب میں بے تحاشا قتل و خون ہوا۔ لاکھوں گھر اجڑے اور ہزاروں معصوم انسان اپنی جان سے گئے، وہاں چند ایسے شہر بھی تھے جہاں فسادات تو نہیں ہوئے مگر خون خرابہ وہاں بھی ہوا۔ وہاں بھی بھولے بھالے مسلمانوں نے پاکستان کے نام پر اپنی جانیں دیں۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس طرف کسی کی توجہ نہیں گئی۔

تازہ ترین