• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسئلہ کشمیر…بدستورحل طلب کیوں؟ خیال تازہ…شہزاد علی

14 اگست کو پاکستان اور 15 کو بھارت کے عوام اپنا اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں اس موقع پر ریاست جموں و کشمیر کے عوام ان سوچوں میں گھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ گھڑی آخری کب آئے گی کہ جب وہ بھی اپنی آزادی کا جشن منائیں گے۔ اس موقع پر کشمیری یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیاوجہ ہے کہ کشمیری ابھی تک آزادی سے محروم ہیں؟ اس مسئلہ پر اقوام متحدہ کی مسلمہ قراردادیں موجود ہیں۔ مگر ابھی تک یہ مسئلہ چونکہ حل طلب ہے اس لیے اس بات پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ آخر اس مسئلہ کے بدستور حل نہ ہونے کا کون ذمہ دار ہے۔قارئین ! ریاست جموں وکشمیر کا رقبہ471 ,84 مربع میل ہے۔ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی اپنے ایک مضمون جونا گڑھ، حیدر آباد اور جموں کشمیر میں لکھتے ہیں کہ کشمیر ہند کی سب سے بڑی ریاست تھی۔اس کی بین الاقوامی سرحدیں تبت، چین، افغانستان اور ایک مختصر حائل علاقہ سے قطع نظر روس سے ملتی ہیں۔ جس سے اسے فوجی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔آزادکشمیر کے ایک محقق محمد سعید اسعد جموں کشمیرمختصر تاریخی جائزہ میں رقم طراز ہیں کہ کشمیر کی مستند تاریخ راج ترنگنی 6 ہزار سال قبل کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔محقق علم الدین سالک نے تاریخی مطالعہ کشمیر مسلمانوں کے عہد میں تزک جہانگیری کے حوالے لکھا ہے کہ جہانگیر بادشاہ نے اپنی تزک میں جگہ جگہ کشمیر کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے کشمیر کے مرغزاروں، گلستانوں اور دیگر روح پرور مناظر کا۔نقشہ اس دلکش انداز میں کھینچا ہے۔۔ "کشمیر ایک سدا بہار باغ ہے۔ یہاں کے دلکش و دلفریب مرغزار اور کیف آگیں وروح پرور آبشار توصیف و تعریف سے مستغنی ہیں۔ان مرغزاروں اور آبشاروں کی خوبصورتی کی تصویر قلم نہیں کھینچ سکتا۔یہاں ان گنت چشمے ہیں جن کا بہتا ہوا پانی انسان کے دل میں ایک عجیب کیف و سرور پیدا کرتا ہے۔ جبکہ شاہ جہاں نے کشمیر کو جنت ارضی بنانے میں بہت کام کیا۔ پروفیسر صاحب زادہ حسن شاہ نے ریاست جموں کشمیر کے کتب خانے میں بتایا ہے کہ کشمیر میں علمی ذوق وشوق کی روایات بڑی پرانی ہیں۔ زمانہ قدیم میں کشمیر علم وفن کا مرکز مانا جاتا تھا۔جبکہ مورخ کشمیر پنڈت کلہن نے لکھا ہے کہ کشمیر میں ہمیشہ سے بڑے بڑے ذہین فاضل پیدا ہوتے چلے آرہے ہیں۔ یہ چند حوالے سروش جموں کشمیر نمبر سے لیے گئے ہیں۔لیکن بقول فرزند کشمیر مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے کشمیر کی صورت حال جو آج بھی شاعرمشرق کے دورکی طرح ہی نہیں بلکہ اس سےبھی کئی گنابدتر ہوچکی ہے۔ کی حالت زار کانقشہ اس طرح کھینچا تھا کہ آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور وفقیرکل جسے اہل نظر کہتے تھے ایمان صغیرآج ہمارا وطن عزیز، خطہء جنت نظیر جموں کشمیر متعدد حصوں میں جبری طور پر تقسیم ہے۔ ریاست کے ایک بڑے حصے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔۔جسے مقبوضہ کشمیر کہا جاتا ہے۔آزادکشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقے پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ کچھ حصہ ایک معاہدہ کے تحت چین کے پاس ہے۔اس جبری تقسیم نے ریاست کے عوام سے ان کا تاریخی ورثہ چھین لیا ہے آج کی نوجوان کشمیری نسل اپنی پہچان کھو بھیٹی ہے۔ کشمیریوں کو اپنی تاریخ و جغرافیہ، تہذیب، علم وادب، کلچر، اقدار اور روایات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کشمیریوں کے معاشی وسائل کوتباہ ہ برباد کر دیاگیا ہے۔جس باعث آج ہمارے سامنے صرف یہی ایک چیلنج نہیں کے رہاست کے منقسم حصوں کو دوبارہ جوڑ کر ان کی یکجہتی اور وحدت بحال کی جائے بکہ ہمارے سامنے ہہ بھی ایک چیلنج ہے کہ کیسے اپنے تاریخی ورثہ کو بحال کرایا جائے۔ اور اپنی قومی اور ملی عظمت اور کھوئی ہوئی پہچان کیسے بحال کرائی جائے۔اور ریاست جموں کشمیر کے عوام کو ان کے اپنے اپنے خطوں اور بیرونی دنیا میں بھی جہاں جہاں بھی کشمیری آباد ہیں کسی میکانزم کے تحت انہیں تحریک آزادی کشمیر کی سرگرمیوں سے منسلک کیا جائے؟ ان سوالوں پر بحث مباحثوں سیمینارز کی ضرورت ہے۔ کیا بھارت کے پاس کوئی آئینی یا اخلاقی جواز ہے کہ وہ کشمیر پر قبضہ جمائے رکھے؟ یا پھر یہ خود کشمیریوں کی نااہل قیادت ہے کہ جو قیادت کی بصیرت سے عاری ہے یا پھر یہ ان کے وکیل پاکستان کی ناقص خارجہ پالیسی ہے کہ جو حق اور صداقت پر مبنی مقدمہ کشمیر پر درکار مطلوبہ عالمی حمایت حاصل نہیں کر سکی؟ یہ دیکھا جائے کہ کیا موجودہ کشمیری لیڈر شپ اس وژن کی حامل ہے کہ وہ تحریک آزادئ کشمیر کواس کے منطقی انجام تک پہنچا سکتےہیں ہمارے اپنے خیال میں آزادئ کشمیر کے لیے جس وژنری لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ اس کا فقدان ہے۔ ورنہ کشمیریوں کی آزادی کا مقدمہ اتنا مضبوط ہے کہ یہ اب تک حل ہوجانا چاہئے تھا۔ یہ سوال بھی زیر گردش ہے کہ کیا مقبوضہ کشمیر میں صرف کامیاب شٹر ڈائون سے مسئلہ کشمیر پر عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکتا ہے؟یہ درست ہے کہ حریت کانفرنس اور تحریک مزاحمت کی قیادت مخلص رہنماوں پر مشتمل ہے۔ جن کی طویل مساعی سے انکار ممکن نہیں۔ سید علی شاہ گیلانی ہوں یا محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ ہوں یامیر واعظ عمر فاروق ، قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ لیکن یاتو اس لیڈر شپ کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ یا کچھ بیرونی ہاتھ یا عوامل رکاوٹ ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ موجودہ طریقہ کار سے تحریک آگے نہیں بڑھ رہی۔ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تحریک مزاحمت میں ریاست کے تمام خطوں کے لوگ شامل کیوں نہیں ہیں؟ کیا آزادکشمیر اور مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کی قیادت درست ہاتھوں میں ہے؟ آزادکشمیر حکومت کیا واقعی بیس کیمپ کا اپنا رول ادا کر رہی ہے؟ کیا برطانیہ اور دیگر بیرونی دنیا میں مقیم کشمیری تحریک آزادی کشمیر کو خارجی محاذ پر اجاگر کرنے کی درست سٹریٹیجی اپنائے ہوئے ہیں؟ اگر تحریک آزادی کشمیر کوواقعی کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے۔آئیےدیکھتے ہیں کہ کشمیریوں کے پاس اپنے فیوچر سٹیٹس کے حوالے کیا آپشنز ہیں: ایک آپشن تو وہ ہے جسے الحاق پاکستان کہا جاتا ہے۔اس آپشن کے حق میں کئی مضبوط دلائل اکابرین کشمیر نے پیش کیےتھے کہ جب انہوں نے ایک باقاعدہ قرارداد کے ذریعے پیش کیا تھا۔ قراداد الحاق پاکستان 19 جولائی 1947 سری نگر میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہاش گاہ پر منظور کی گئی تھی اور اسے اس وقت کشمیری مسلمانوں کی ایک بڑی اور نمائندہ جماعت آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس نے پیش کی تھی قرارداد الحاق پاکستان کی دستاویز میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ آج کشمیریوں کے سامنے تین راستے ہیں۔ ریاست کا بھارت سے الحاق، ریاست کا پاکستان سے الحاق یا کشمیر میں ایک آزادوخودمختار ریاست کا قیام۔لیکن جغرافیائی اقتصادی لسانی ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ریاست پاکستان سے الحاق نہایت ضروری ہے کیونکہ ریاست کی آبادی کا 80 فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہےاور پاکستان کے تمام بڑےدریا جن کی گزرگاہ پنجاب ہے کے منبع کشمیر میں ہیں۔ریاست کشمیر کی سرحدیں تو پاکستان سے پہلے ہی ملحق ہیں۔اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ مضبوط رشتوں میں بندھے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق ہو۔دوسرا آپشن اس متعلق بھی مضبوط دلائل موجود ہیں۔خودمختار کشمیر سے متعلق جموں کشمیر بک آف نالج : ’’مسئلہ کشمیر کا آسان ، شفاف اور منصفانہ طریقہ یہ ہے کہ اس دیرپا تنازع کا آغاز جہاں سے ہوا تھا وہیں سے شروعات کی جائیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے اعلان آزادی کے وقت یعنی 14، 15 اگست کو ریاست جموں و کشمیر کوجو آئینی اور انتظامی حیثیت حاصل تھی وہ بحال کر دی جائے۔ریاست دونوں نو آزاد ممالک میں سے کسی کا حصہ نہیں تھی۔اقوام متحدہ کی قرردادوں کا احترام کرتے ہوئے ریاست سے پاکستان اور ہندوستان کی مسلح افواج اور سول انتظامیہ رضاکارانہ طور پرنکل جائے۔ ریاست کی جبری تقسیم ختم کر کے اس کی تمام جغرافیائی اکائیوں کی کھوئی ہوئی وحدت بحال کی جائے۔خوف اور جنگ کے سبب ریاست سے نکل جانے والے افراد یا گھرانوں کو وطن واپسی کا حق دیا جائے۔ریاستی وحدت بحال ہونے پر یہاں مختصر مدت کیلئے ایک عبوری حکومت قائم کی جائے۔ اس حکومت کو اقوم متحدہ کی حمایت اورمدد حاصل ہو۔ ناظم رائے شماری کا تقرر عمل میں لاتے ہوئے یواین او حق خودارادیت کے اصولوں کے تحت رائے شماری کا انعقاد کروائے۔ ریاستی عوام ہر طرح کے خوف ، ڈر ، لالچ، دبائو اور بیرونی اثر و رسوخ سے ماورا ہو کر اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کریں کہ وہ ریاست جموں کشمیر کومکمل طور پر آزاد رکھنا چاہتے ہیں یا ہندوستان پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیںاس عوامی ریفرنڈم کے ذریعے جو بھی اکثریتی فیصلہ سامنے آئے اسے مسئلہ کشمیر کے تمام فریق صدق دل سے تسلیم کر لیں مسئلہ کشمیر کا بہترین اور دیرپا حل یہی ہے۔‘‘ پاکستان کی عملی حمایت کا جہاں تک تعلق ہے۔قائداعظم کے بعد صحیح معنوں میں مسئلہ کشمیر کو قائد عوام شہید بھٹو نے کشمیر کے لیے ایک ہزار سال تک لڑنے کا نعرہ لگا کر اس کےتن مردہ میں نئی جان ڈال دی تھی اس وقت بھٹو کا یہ نعرہ مستانہ کشمیر کی گلی گلی میں گونجھتا تھا۔ مگر یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ شہید بھٹو کے علاوہ دیگر حکمران مسئلہ کشمیر پر جاندار کردار ادا کیوں نہیں کر سکے؟اسی طرح آزادکشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم کانفرنس، جموں کشمیر لبریشن لیگ، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ ن، آزادکشمیر تحریک انصاف، کشمیر فریڈم موومنٹ ، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ، محاذ رائے شماری ، نیشنل لبریشن فرنٹ اور شخصیات میں غازئ ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم، خورشید ملت کے ایچ خورشید مرحوم، چوہدری غلام عباس مرحوم چوہدری نور حسین مرحوم، عبدالخالق انصاری مرحوم، سردار عبدالقیوم خان مرحوم، ڈاکٹر فاروق حیدر، سردار رشید حسرت خان مرحوم ، میر عبدل قیوم اور میر عبدل منان پاکستان کے اندر اور بیرونی دنیا میں امان اللہ خان مرحوم، موجودہ قیادت میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، چوہدری عبدل مجید، چوہدری محمد یاسین، سردارعتیق احمد خان، ریٹائرڈ چیف جسٹس ملک عبدل مجید، رشید ترابی، راجہ فاروق حیدر، سردار مسعود احمد خان اور کئی دیگر اپنے اپنے انداز میں مسئلہ کشمیر پر متحرک کردار ادا کرتے رہے ہیںجبکہ وکلاء اور طلبہ کا بھی اہم رول رہا ہے این ایس ایف، پی ایس ایف، کے ایس ایف ایم، انجمن طلبا اسلام، ایم ایس ایف، جے کے ایس ایلایف، اسلامی جمعیت طلبہ اور کئی دیگر نے بھی بلاشبہ انتھک جدوجہد کی اور 1989کے عرصہ میں کئی طلباء تنظیمیں آزادکشمیر میں اس طرح کے جب نعرے لگاتے تھے:
کہ بہن سے پوچھا آنچل لہرایا آزادی
ماں سے پوچھا ممتا بولی آزادی
دریا سے پو چھا لہریں بولیں آزادی
سورج سے پوچھا شاعیں بولیں آزادی
مجھے یہ بھی یاد ہے جب کے ایس ایف ایم کے طلبہ منگلہ ڈیم کے گہرے پانی کے اندر بھی لفظ آزادی لکھ دیتے اور جان کی پروا نہیں کرتے تھے اور کئی تنظیمیں یہ ترانے گاتی تھیں:
وطن کی مٹی ماں ہوتی ہے اس کو کیوں ہم بھولیں
کیا ہمارا یہ حق نہیں کہ اس کی باہوں میں ہم جھولیں
کیوں نہ کشمیر کو ماں کی طرح چاہوں میں
کہ جس نے صدیوں سے میرا بوجھ اٹھا رکھا ہے
1990 کی دہائی میں کشمیر کے لیے لوگوں میں ایک نیا جذبہ دکھائی دیتا تھا۔اور این ایس ایف کے سرخ جیالے تقسیم کی خونی لکیر توڑنے کے لیے جان کی بازی لگا دیتے تھے۔ ادھر برطانیہ میں حالیہ عرصہ میں برطانوی حکومت کے ساتھ لارڈ قربان حسین اور لارڈ نذیر احمد، ایم پی سٹیو بیکر اور چند دیگر پارلیمنٹیرین کی کاوشیں قابل قدر رہی ہیں، کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو اٹھانے کے حوالے ڈاکٹر سید نذیر گیلانی ایک معتبر حوالہ ہے جبکہ متحرک کشمیریوں اور پاکستانیوں کی ایک طویل لسٹ ہے اسی طرح امریکہ ، کئی یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مقیم متعدد رہنماایسے ہیں جو ہمہ وقت متحرک دکھائی دیتے ہیں۔جبکہ ماضی میں برطانیہ میں کشمیر فریڈم موومنٹ، جےکے ایل ایف، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم کانفرنس، کشمیر لبریشن لیگ وغیرہ کافی متحرک رہی ہیں۔ تاہم عمومی طور ہماری رائےمیں کشمیری عوام کو ایک ایسی وژنری لیڈرشپ کی اس وقت اشد ضرورت ہے جو کہ بیک وقت کئی محاذوں پر قیادت فراہم کر سکے۔تحریک حریت کے موجودہ رہنما تو اپنی ہمت سے بڑھ کر بھارت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ مگر درپیش چیلنجز کی نوعیت ایسی ہے کہ ایک ایسی نئی جواں سال قیادت کا ابھرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ جو بیک وقت مختلف محاذوں پر درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ایسا کام صرف ایک وژنری لیڈر شپ ہی انجام دے سکتی ہے۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے تمام حصوں سمیت دنیا بھر میں پھیلے کشمیریوں پر مشتمل ایک گریٹر کشمیری پیپلز الائنس جس میں خواتین کی بھی بھرپور نمائندگی ہو تشکیل دی جائے، بالفاظ دیگر مسئلہ کشمیرکےپرامن اور دیرپا حل کے لیے ایک بڑی موومنٹ کا آغاز کیا جائے۔

 

تازہ ترین