• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خانۂ کعبہ کا دیدار خصوصی تحریر…عظیم سرور

کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو حج کا عزم کرکے جارہے ہیں، حسرت آتی ہے وہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں۔ لوگ مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہیں تو نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے۔ آنکھوں کی عید ہوجاتی ہے۔ خانہ کعبہ کا دیدار ہر آنکھ، ہر دل پر الگ الگ اثر کرتا ہے، جس طرح خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والے ہر نمازی کا زاویہ اور فاصلہ دوسرے نمازی سے مختلف ہوتا ہے۔ نماز، حرم مکہ میں پڑھی جارہی ہو یا دنیا میں کسی بھی جگہ ہر شخص کو انفرادی اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حضور حاضر ہے اس کے گھر کی طرف رخ ہے لیکن اس کی انفرادیت قائم ہے کہ اس کا زاویہ اور فاصلہ اپنا ہے۔ خانہ کعبہ کا دیدار دلوں پر کیا اثر کرتا ہے اور کیسی کیسی یادیں بسا جاتا ہے یہ ہر شخص الگ الگ جانتا ہے۔ پہلی بار خانہ کعبہ کا دیدار مجھے خواب میں ہوا تھا۔ 1974ء کی بات ہے، میں نے دیکھا پرانا زمانہ ہے، خانہ کعبہ کی عمارت پتھروں کو گارے سے جماکر بنائی گئی ہے۔ میں رکن یمانی کے پاس بنے ہوئے ایک دروازے سے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوجاتا ہوں اور پھر موجودہ دروازے سے جو اس دروازے کے سامنے تھا خانہ کعبہ سے باہر نکل آتا ہوں۔ صبح اٹھ کرخواب کو یاد کررہا تھا اور پریشان ہورہا تھا کہ خانہ کعبہ کا تو ایک ہی دروازہ ہے جو باب ملتزم کہلاتا ہے۔ میں نے دو دروازے کیوں دیکھے۔ میں نے اس پریشانی کا اظہار ریڈیو کے ایک افسر جناب مجید فاروقی سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ عربی سروس میں جاکر مولانا الحسینی کو یہ خواب سنائوں۔ میں ان کے پاس گیا خواب سنایا تو انہوں نے مبارکباد دی اور بتایا کہ آپ کو عہد عتیق کا خانہ کعبہ دکھایا گیا اس وقت خانہ کعبہ کے دو دروازے تھے۔ یہ میری معلومات میں اضافہ تھا، اس سے پہلے مجھے یہ معلوم نہ تھا لیکن یہ اللہ کا کرم تھا کہ اس نے مجھے صدیوں پرانے خانہ کعبہ کا دیدار کرایا۔ 1978ء میں عمرے کی سعادت نصیب ہوئی، اس وقت صحن حرم پکا نہ تھا۔ صرف سیمنٹ کی روشیں تھیں اور بیچ میں بجری ڈال کر ان پر صفیں بچھادی جاتی تھیں۔ میں نے وطن سے باہر پہلی رات حرم کعبہ میں بسر کی۔ مغرب کے بعد مسجد الحرام میں داخل ہوا تھا اور فجر کی نماز پڑھ کر باہر نکلا۔ اس کےبعد کئی بار عمرے کی سعادت ملی اور پندرہویں صدی ہجری کے پہلے حج میں حج کی سعادت عطا ہوئی۔ خانہ کعبہ کا دیدار ہر بار دل کو نئی دولت دیتا تھا۔ پھر اللہ نے خانۂ کعبہ کا دیدار اس طرح کرایا کہ میں آج تک اپنی قسمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ خلیج کی جنگ کا زمانہ تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم نے 6 ملکوں کے دورے کا پروگرام بنایا۔ اس دورے کی ریڈیو کوریج کے لئے مجھے مقرر کیا گیا۔ مجھے بتایا کہ وزیراعظم دورے کے آخر میں طائف بھی جائیں گے۔ میں خوش ہوا کہ عمرے کا موقع بھی مل جائے گا۔ لیبیا، الجزائر، مراکش، تیونس ہوتے ہوئے ہم جنیوا پہنچے۔ یہاں وزیراعظم کا ہوٹل الگ تھا، وہاں ان سے ملنے کے لئے سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ آئے تھے، ہم گئے اور دونوں وزراء کے انٹرویو ریکارڈ کئے۔ انٹرویو کے بعد میں ہوٹل کے کائونٹر سے کہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ سامنے لفٹ سے وزیراعظم نکلے اور سیدھے میرے پاس آگئے، ہاتھ ملایا اور پوچھا ’’یہاں سردی ہے آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی۔‘‘ میں نے کہا ’’نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں، بس آپ مجھے ایک انٹرویو دیدیں۔‘‘ وہ کہنے لگے ’’اب تو فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے، انٹرویو جہاز میں کرلینا میں اپنے کمرے میں بلالوں گا۔‘‘ میں نے کہا ’’جناب ہم سعودی عرب جارہے ہیں تو کیا عمرے کی سعادت بھی ملے گی؟‘‘ بولے ’’عمرے کا تو پروگرام نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’ جناب میں تو اس ٹور میں اسی خوشی کے ساتھ آیا تھا کہ عمرہ بھی مل جائے گا۔‘‘ کہنے لگے ’’میں طائف پہنچ کر کوشش کروں گا، دراصل پروٹوکول وغیرہ کے مسائل ہوتے ہیں۔‘‘ ایک ہلکی سی امید کی کرن روشن ہوئی تھی۔ جہاز کی پرواز کو 30منٹ ہوئے تھے کہ کھانا لگایا جانے لگا، ٹرالی پہلے وزیراعظم کے پاس آئی تو انہوں نے ائیر ہوسٹس سے کہا کہ ابھی کھانا روک دیں اور ریڈیو پروڈیوسر کو بلالیں۔ ائیرہوسٹس میرے پاس آئی اور وزیراعظم کا پیغام دیا۔ انٹرویو ہوگیا۔ پرواز جاری تھی، جنیوا سے طائف کا سفر تھا۔ آدھی رات کے وقت جہاز طائف کے قریب پہنچ رہا تھا۔ ہمارے کیبن اور وزیراعظم کے کمرے کے درمیان لگا پردہ ہٹادیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ائیر ہوسٹس نے وزیراعظم سے کچھ کہا اور کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے ائیر ہوسٹس سے کچھ کہا اور وہ ائیرہوسٹس وہاں سے سیدھی میرے پاس آئی اور بولی۔ ’’سر نیچے دیکھئے حرم پاک نظر آرہا ہے۔ میں نے دیکھا دور نیچے روشنیوں کا خزانہ تھا۔ یہاں سے مکہ مکرمہ 70یا 80 میل دور ہوگا اور 35ہزار فٹ کی بلندی سے میں حرم پاک کو دیکھ رہا تھا، صرف2 مربع فٹ پٹی پر روشنی ہی روشنی تھی اور اس کے بیچوں بیچ خانہ کعبہ تھا۔ خانۂ کعبہ کا اس انداز سے دیدار ایک بہت بڑا اعزاز تھا، بہت بڑا عطیہ تھا میرے لئے۔ میں نے بے اختیار ’’لبیک اللھم لبیک !‘‘ کی صدا بلند کردی۔ خانہ کعبہ کا یہ دیدار میری زندگی کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے خواب میں دیدار کعبہ کرایا۔ مجھے پرانے وقتوں میں لے جاکر… پھر اس نے دیدار کعبہ کرایا زمین سے 35ہزار فٹ اوپر لے جاکر… واہ میرے مولا… اس دیدار کے صدقے۔

تازہ ترین