• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مقدمے میں چار فیصلے ، پاکستان اور دنیا کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی

Todays Print

اسلام آباد (طارق بٹ)برطرف وزیراعظم نے اپنی ازسرنو جائزے کی درخواست میں اس نظریے کا اظہار کیا ہےکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں اصل پانچ رکنی بینچ 20 اپریل کو اپنا فیصلہ دینے کے بعد ’’فنکٹس اوفیشو‘‘ (ایکسپائر) ہوچکا تھا۔ 28 جولائی کو نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس نکتے کو ممتاز اور معزز وکلا نے تحریری صورت میں اور ٹی وی چینلز پر اپنے تبصروں میں بار بار اٹھایا اور اس پر زور دیا تھا۔

اس سلسلے میں ایڈوکیٹ خواجہ حارث نے ایک درخواست تیار اور فائل کی ہے جس میں کئی اہم نکات اٹھائے گئے ہیںجس میں عدالتی حکم کے خلاف دلائل دیتے ہوئے اسے واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔ انہوں نے تین ججوں پر مشتمل خصوصی بینچ کی تشکیل میں بھی خرابی کی نشاندہی کی ہے، جنہوں نےا صل پینل تشکیل دیا تھا۔

فیصلے کو معطل کرنے کے استدعا کرتے ہوئے نظرثانی کی اپیل میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ 28 جولائی کا حکم ’’کورم نان جوڈائس‘‘ (جج کے بغیر) ہےاور وہ اس طرح ہے کہ اسے پانچ رکنی بینچ نے منظور کیا ہے جس کا اس معاملے میں جورس ڈکشن نہیں تھا اورقومی احتساب بیور و کو دی گئی ہدایات کہ کس طرح تفتیش کی جائے، کون سی شہادت دیکھی جائے اور جمع کی جائے، کتنے ریفرنس فائل کیے جائیں اور کس احتساب عدالت کے سامنے اور ان ریفرنسوں کی مانیٹرنگ، سپروائزنگ اور تفتیش و ٹرائل کی نگرنی کے بارے میں ہدایات ٹرائیکوٹمی آف پاور کے اصول اور آئین کی دفعہ 175 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دفعہ چار کے تحت ڈیو پروسیس کے اصول اور نواز شریف کے منصفانہ ٹرائل کے جس کی دفعہ ٹین اے میں ضمانت دی گئی ہے کی بھی خلاف ورزی ہے۔

نظرثانی پٹیشن میں کہا گیا ہےکہ ریکارڈ کے مطابق حقیقت میں پاناما کیس میں چار حتمی فیصلے دیے گئے ہیں۔ پہلا 20 اپریل کو جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کی جانب سے اقلیتی فیصلہ، دوسرا اکثریتی فیصلہ جو جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن کا اسی تاریخ کو، تیسرا 28 جولائی کو ان ہی تین ارکان کی رولنگ اور چوتھا جو 28 جولائی کو عدالت کا حتمی حکم جو پانچ رکنی پینل نے دیا۔

پاکستان کی تاریخ اور دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ ایک کیس میں چار فیصلے دیے گئے ہوں۔ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ اس ناموافق صورتحال کا حل نکالا جائے اور اس میں موجود بے ضابطگیوںکو دور کیا جائے اور 28 جولائی کے عدالت کے حتمی حکم پر نظرثانی کی جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 20 اپریل کے حکم کی ٹرم کے مطابق دو الگ اور خود مختار بینچز تشکیل دی جانی چاہیے تھی، ایک اس حکم پر عمل درآمد کے لئے اور دوسری تفتیش مکمل ہونے کے بعد جے آئی ٹی کی رپورٹ وصول کرنے اور موزوں حکم جاری کرنے کے ساتھ نواز شریف کی نااہلی کے معاملے پر غور کر نے کے لئے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ اس لئے ضروری تھا تاکہ نواز شریف کے منصفانہ عدالتی کاروائی کے حق کا تحفظ کیا جاسکے کیونکہ یہ  انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی اس کی اجازت ہے کہ وہی بینچ تفتیش کی نگرانی کرےاور اس تحقیق کی بنیاد پر عدالتی حکم بھی جاری کرے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 20 اپریل کا فیصلہ جو تین ججوں نے سنایا وہ صرف 28 جولائی کے فیصلے کی تمہید تھا، 20 اپریل کے فیصلے کے کسی بھی حصے کو 28 جولائی کے حتمی فیصلے کے لازمی حصے کے طور پر پڑھا نہیں جاسکتا۔ خواجہ حارث نے درخواست میں مزید زور دیا ہے کہ پانچ رکنی بینچ کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان سے کی گئی درخواست کہ ایک جج نامزد کیا جائے جو عدالت کے حتمی حکم پر عمل درآمد نگرانی کرے، پر نظرثانی کی جائے اور نوازشریف اور دیگر کے خلاف عدالت کے حتمی حکم پر تفتیش سے متعلق معاملات اور ریفرنسز کے ٹرائل کا مطلب یہ ہے کہ معزز عدالت شکایت کنندہ، تفتیش کار، پراسیکیوٹر، جج ، جیوری اور حتمی اپیل کی عدالت کا کردار ایک ساتھ ادا کر رہی ہے، جو پاکستان کے فوجداری نظام انصاف کے خلاف ہے۔ 

تازہ ترین