• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف نے نظرثانی درخواست میں جے آئی ٹی پر سوالات اُٹھا دیئے

Todays Print

اسلام آباد(رپورٹ:فخر درانی) سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت عظمیٰ میں اپنی نظرثانی درخواست میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم اور اس کے ارکان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کی ساکھ، درخواست گزار اور اس کے خاندان سے غیر منصفانہ سلوک پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔

درخواست میں جے آئی ٹی ارکان اور ا ن کی رپورٹ کی تعریف و توصیف کو درخواست گزار کے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ حقوق متاثر ہو سکتے ہیں ۔یہ منصفانہ اور شفاف ٹرائل کا حق غصب کے مترادف اور احتساب عدالت کا فیصلہ بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم کی قانونی ٹیم نے جے آئی ٹی رپورٹ کو سفارشات پر سوال اٹھانے کے ساتھ اس میں خامیوں کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ جے آئی ٹی ارکان نے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کیا۔

عدالتی فیصلے کے پیرا گراف نمبر۔6 میں جے آئی ٹی اور اس کی جانب سے رپورٹ کی جو تعریف کی گئی ان پر نظرثانی اور حذف کئے جانے کی ضرورت ہے۔جوجو درخواست گزار کے آئین میں میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے جے آئی ٹی ارکان کی تعریف میں ریکارڈ کو غلط پڑھا۔ 20اپریل 2017 کو عدالتی حکم کے تحت جے آئی ٹی نے کوئی رپورٹ تیار نہیں کی بلکہ اسے 60دنوں میں مکمل رپورٹ کی تیاری کا حکم دیا گیا۔ لیکن اس کی رپورٹ نہ صرف نامکمل رہی بلکہ اس سنگین نوعیت کی خامیاں بھی ہیں۔

جو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن۔(g)21 کی خلاف ورزی ہے۔ سابق وزیر اعظم کی قانونی ٹیم نے مزید استدعا کی کہ جے آئی ٹی ارکان کی تعریف و توصیف درخواست گزار کا منصفانہ اور شفاف ٹرائل کے حق کو غصب کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کے حوالے سے عدالت کا حتمی فیصلہ/حکم نامہ کہ ان کی ملازمت کے دورانیہ کو تحفظ دیا جائے۔ تقرری و تبادلے کے حوالے سے مانیٹرنگ جج کے علم میں لائے بغیر کسی بھی قسم کے منفی اقدامات نہ کئے جائیں۔

مذکورہ ہدایت بھی منصفانہ ٹرائل کے لئے درخواست گزار کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ حتمی حکم نامہ جو مبینہ طور پر نیب کو جے آئی ٹی کے جمع کردہ مواد کی بنیاد پر ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ یہ اقدام بھی نیب کے اختیار سے تجاوز ہے۔ سابق وزیر اعظم کی نظرثانی پٹیشن میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ نیب کو دی جانے والی ہدایت جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، جے آئی ٹی کی جمع کردہ نام نہاد شہادت کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے منظوری کے مترادف ہے۔ جس کے نتیجے میں احتساب عدالت کے جج کا ایسے مواد کو قبول کرنے سے فیصلہ متاثر ہوسکتا ہے۔ 

تازہ ترین