• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اثاثے کی جس تعریف پر انحصار کیا گیا وہ بلیک ڈکشنری میں موجود نہیں

Todays Print

اسلام آباد (عثمان منظور)برطرف وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی نظرثانی کی درخواست میں کہا ہے کہ انہیں بلیک کی قانون کی لغت کا حوالہ دے کر برطرف کیا گیا ہے لیکن مذکورہ ڈکشنری کے کسی بھی ایڈیشن میں اس دعوے کی تشریح کی سپورٹ نہیں ملتی جس پر معزز عدالت نے انحصار کیا ہے۔ بلیک کی لا ڈکشنری دنیا بھر میں سب سے زیادہ قابل بھروسہ سمجھی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بلیک کی لا ڈکشنری کا حوالہ دے کر نااہل قرار دیا گیا تھا اور ذکر کیا تھا کہ لیگل بائبل کے مطابق قابل وصول تنخواہ اثاثہ ہوتی ہے۔ جبکہ نواز شریف نے نظرثانی پٹیشن میں یہ استدعا کی ہے کہ اس معزز عدالت نے اثاثے کی جس تعریف پر انحصار کیا ہے وہ بلیک کی قانون کی کسی بھی ڈکشنری میں موجود نہیں ہے نہ ہی جس تعریف پر انحصار کیا گیا ہے وہ معیاری قانونی، کاروباری اور دیگر لغات میں موجود واحد تعریف ہے۔نواز شریف نے اپنی نظرثانی کی درخواست میں کہا ہے کہ اگر ایف زیڈ ای کمپنی سے وصول نہ کی گئی تنخواہ اثاثہ بھی ہے تب بھی اس سے وہ بددیانت نہیں ہوجاتے، یہ محض قانون سے متعلق غلط فہمی تھی اس طرح کی بھول چوک میں کوئی بدنیتی شامل نہیں تھی۔

نظرثانی پٹیشن میں سپریم کورٹ کے کچھ فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے جہاں معزز ججوں کی جانب سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ محض بھول چوک کی وجہ سے اثاثے کا اعلان نہ کرنے پر امیدوار بددیانت نہیں ہوجاتا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کی جانب سے اپنے کاغذات نامزدگی میں غیروصول شدہ تنخواہ کے ذکر میں بھول چوک پر کسی بھی طرح از خود آر او پی اے کی دفعہ 99 ایف اور آئین کی دفعہ 62 ایک ایف اس وقت تک لاگو نہیں ہوتی جب تک کہ پہلے اس بات کا تعین نہ ہوجائے کہ یہ بھول چوک دانستہ تھی یا بدنیتی کی بنیاد پر تھی یا محض غیر ارادی طور پر تھی، حادثاتی طورپر تھی ، آیاقانون یا حقیقت کو غلط سمجھنے کی وجہ سے تھی۔

یہ کہ یہ پہلے تاثر کا سوال ہے آیا قابل وصول آر او پی اے کی دفعہ 12 (2) کے مقاصد کے لئے اثاثہ ہے یا نہیں، درخواست گزار سے کوئی بددیانتی پر مبنی ارادے سے منسوب نہیں کیا جاسکتا یہاں تک کہ اگر اس طرح کی تنخواہ کو یہ معزز عدالت قابل وصول اور اثاثہ قرار دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چند فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ محمد یوسف کے کیس میں (پی ایل ڈی 1973 ایس سی 160) محمد سعید کے کیس میں (پی ایل ڈی 1957 ایس سی 91) اور صدیق بلوچ بمقابلہ جہانگیر خان ترین کیس (پی ایل ڈی 2016 ایس سی 97) میں عدالت نے کہا ہے کہ چونکہ منتخب نمائندے کی نااہلی اپنی نوعیت میں ایک سزا ہے لہذا ٹرمز کی سخت تعبیر کرنے کی ضرورت ہے اور شک کا فائدہ منتخب امیدوار کے حق میں ہوتا ہے۔ اس کیس میں یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ نااہلی کی بنیاد مثبت شواہد پر ہونی چاہیے اور یہ استنباطی طور پر یا قیاس کے ذریعے نہیں ہونی چاہیے۔

یہ کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جو رائے حسن نواز بمقابلہ حاجی محمد ایوب (پی ایل ڈی 2017 ایس سی 70)میں قرار دیا گیا کہ بے شک غلطی یا بھول چوک جو نہ تو ارادی طور پر ہو اور نہ انتخاب لڑنے والے امیدوار کے اثاثوں یا مالی ذمہ داریوں کے تعلق سے ہو تو یہ کرپٹ پریکٹس نہیں ہوگی اور یہ آر او پی اے 1976 کی دفعہ 78 تھری ڈی میں آئے گی۔

جہاں تک  اس معزز عدالت کی جانب سے درخواست گزار کو اپنے کاغذات نامزدگی میں وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کو اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر آئین اور آر او پی اے کے تحت دیانت دار قرار نہ دینا ہے تو یہ استدعا کی جاتی ہے کہ جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے وہ شیخ محمد اکرم کے کیس میں بتائی گئی شرح کو نوٹ کیے بغیر کیا گیا ہے ، جس میں معزز عدالت نے منتخب امیدوار کے نااہل ہونے کا نتیجہ محض اس وجہ سے اخذ کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ان سے غلطی سے اپنی کاغذا ت نامزدگی پر اپنے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کا اندارج کرنا رہ گیا تھا اور امید وار کے نااہل قرار دینے کے لئے متعدد عوامل کو متعلق قرار دیا گیا تھا۔

تازہ ترین