• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی نظر ثانی اپیل میں وزن ہے ریلیف مل سکتا ہے ، تجزیہ کار

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئےسابق صدر ایس سی بی اے سید علی ظفر نے کہا کہ یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ تحقیقات میں حصہ لے یا ٹرائل کورٹ کی مانیٹرنگ شروع کردے تو کیا اس سے فیئر ٹرائل کے اصول کو نقصان نہیں پہنچے گا، اگر سپریم کورٹ انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کو سپروائز کرے گی تو ایک فریق کو کیا انصاف ملے گا۔

نواز شریف جوا عتراضات ریویو پٹیشن میں اٹھارہے ہیں وہ جے آئی ٹی بننے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے چاہئے تھے، سپریم کورٹ پہلے ہی تمام فریقین سے پوچھ چکی تھی کہ آپ کو ہم پر اعتماد ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں تو اس پر تمام فریقین نے آمادگی ظاہر کی تھی۔علی ظفر نے کہا کہ پاناما کیس فیصلے پر ریویو فائل کرنا نواز شریف کا حق ہے، سپریم کورٹ کے پانچوں جج صاحبان اس پر پوری قانونی بحث سنیں گے، مسئلہ یہ ہے کہ ریویو انہی جج صاحبان کے پاس جاتا ہے جنہوں نے فیصلہ کیا ہوتا ہے اور وہ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہیں۔

عدالت یہی کہے گی کہ ہم نے فیصلہ تنخواہ اثاثہ بنتی ہے یا نہیں ہے کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ نواز شریف کو کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے واضح بتانا چاہئے تھا کہ میں ایک کمپنی کا چیئرمین ہوں جس کی مجھے تنخواہ مل سکتی ہے اور میں نے تنخواہ نہیں لی لیکن انہوں نے یہ سب نہیں بتایا۔ علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو پٹیشن کے دوران اپنے فیصلے معطل نہیں کرتی ، عدالت ریویوپٹیشن میں بحث سننے کے بعد کوئی فیصلہ کرتی ہے، پاناما کیس کی ریویو پٹیشن میں بھی سپریم کورٹ اپنے آرڈرز کو معطل نہیں کرے گی۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی نے کہا کہ بیس اپریل کے فیصلے میں عملدرآمد بنچ عارضی مدت کیلئے بنایا گیا تھا، عملدرآمد بنچ کا کام جے آئی ٹی کی کارروائی کو مانیٹر کرنا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد معاملہ واپس پانچ رکنی فل بنچ کے سامنے جانا تھا، نواز شریف اعتراض کرسکتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر بحث پانچ کے بجائے تین ججوں نے سنی لیکن فیصلہ اس پر پانچوں ججوں نے سنایا، نواز شریف کی ریویو پٹیشن میں جے آئی ٹی کی تعریف کرنے پر عدالت پر اعتراض دراصل سپریم کورٹ کے متعصب ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے نیب کورٹ کو سپروائز کرنے کا اعتراض بالکل درست ہے کیونکہ یہ عمل عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتا ہے، اگر نیب کورٹ کے سر پر سپریم کورٹ کا جج بٹھادیا جائے گا تو نیب کورٹ کے خودمختارانہ فیصلے کو بھی سپریم کورٹ کے اثر کے تحت قرار دیا جائے گا۔

رشید اے رضوی نے کہا کہ بلیک لاء ڈکشنری میں موجود تعریف پر پاکستانی قانون کو فوقیت حاصل ہے، اگر انکم ٹیکس لاء میں تنخواہ کی تعریف موجود ہے تو اسے کسی بھی قانونی ڈکشنری پر فوقیت ہوگی، نواز شریف کو بتانا پڑے گا کہ ایف زیڈ ای کیپٹل نے اگر ان کی تنخواہ آئوٹ اسٹینڈنگ میں ظاہر نہیں کی تو نواز شریف اپنے اکائونٹ میں قابل وصولی میں کیسے ظاہر کرسکتے ہیں۔ماہر قانون زاہد جمیل نے کہا کہ پاناما کیس میں عدالتی فیصلے کا آئندہ تمام عدالتی فیصلوں پر اثر پڑسکتا ہے۔

سپریم کورٹ کیلئے ریویو پٹیشن میں اپنے فیصلے سے متعلق چیزیں واضح کرنا بہتر رہے گا، سپریم کورٹ کو واضح کرنا ہوگا کہ پانچ رکنی بنچ سے تین رکنی عملدرآمد بنچ کے پاس کیس جانا اورپھر پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ سنانا کس طرح ممکن ہوا، اگر تین رکنی عملدرآمد بنچ میں پانچ رکنی بنچ سے مختلف جج ہوتے تو کیا یہ پانچ رکنی بنچ دوبارہ فیصلے کیلئے بیٹھ سکتی تھی ، اسی طرح اگر جے آئی ٹی نواز شریف کو بے گناہ قرار دیدیتی تو جن دو ججوں نے نواز شریف کیخلاف فیصلہ دیا کیا وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی نہیں کرسکتے تھے۔

ان دو ججوں نے جے آئی ٹی رپورٹ نہیں پڑھی لیکن عجیب بات ہے کہ اٹھائیس جولائی کے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم سب نے رپورٹ پڑھ لی جس کی بنیاد پر فیصلہ دے رہے ہیں، یہ ایسی باتیں ہیں جنہیں عدالت نے ریویو پٹیشن میں دیکھنا پڑے گا۔ زاہد جمیل کا کہنا تھا کہ پاکستان کے انکم ٹیکس آرڈیننس میں تنخواہ کی بہت واضح تعریف دی گئی ہے، تنخواہ وہ ہوتی ہے جو آپ نے وصول کرلی ہو یہ نہیں کہ جو تنخواہ وصول کرنی ہو، تنخواہ کی تعریف میں تضاد ہے جس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔

دوسری بات جو بہت اہم ہے کہ اگر غلطی ہوگئی یا کسی طرح یہ بات رہ گئی تو سوال یہ نہیں کہ آپ نے غلط بیانی کرلی بلکہ بے ایمانی کہی گئی ہے، پاکستانی قانون میں بے ایمانی کی تعریف موجود ہے اس میں آپ کو دکھانا پڑے گا کہ ایک شخص کی نیت تھی کہ جب وہ بتا نہیں رہا تھا کہ اس کو کچھ فائدہ ہوگا اس لئے اس نے نیت کی کہ یہ نہیں بتائو ورنہ مجھے مسئلہ ہوجائے گا، یہ باتیں ٹرائل اور شہادتوں کے ذریعہ ثابت کرنا پڑتی ہیں لیکن پاناما فیصلہ میں ایسا نہیں ہوا، بیس اپریل کے فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر تین رکنی بنچ نااہلی کے معاملہ کو دیکھے گا تو وہ نواز شریف کو بلانے کیلئے سمن جاری کرسکتا ہے، یہ طریقہ صحیح ہوتا کہ انہیں کہا جاتا کہ آپ کیخلاف یہ چارج ہے تو آپ آئیں تاکہ اس کا ٹرائل کیا جائے، یہ ٹرائل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ یا پانچ رکنی بنچ کے سامنے یا الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوسکتا تھا، اب دیکھنا پڑے گا سپریم کورٹ ریویو میں ان معاملات کو ہینڈل کرتی ہے یا نہیں کرتی ہے۔

سابق صدر ایس سی بی اے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پاناما کیس فیصلہ کا ایک حصہ آرٹیکل 62سے، دوسرا ریفرنسز فائل ہونے اور تیسرا مانیٹرنگ سے تعلق رکھتا ہے، اس فیصلے کے پہلے اور تیسرے حصے میں ریویو کی گنجائش موجود ہے، آرٹیکل 62کے حوالے سے دو جج جے آئی ٹی رپورٹ کے بغیر ہی فیصلہ دے چکے تھے اس کے بعد تین ججوں نے مانیٹرنگ کی، یہ مناسب بات نہیں کہ تین ججوں نے پہلے جے آئی ٹی کو مانیٹر کیا اور پھر خود ہی اس معاملہ کی سماعت کی، پہلے فیصلہ دینے والے دو ججوں نے جے آئی ٹی سے متعلق بات نہیں سنی تو کس طرح اس پر فیصلہ دیدیا، کسی بھی پٹیشن میں ایف زیڈ ای کیپٹل کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا تھا، دیکھنا ہوگا کہ کیا اس کے باوجود عدالت اس بات پر وزیراعظم کو نااہل قرار دے سکتی تھی یا نہیں دے سکتی تھی، سپریم کورٹ شریف خاندان کیخلاف ریفرنس میں فیصلے کیلئے نیب کورٹ کو چھ مہینے دے رہی ہے حالانکہ نیب آرڈیننس میں کیس کے فیصلے کا ٹائم فریم تیس دن ہے، دیکھنا ہوگا کہ کیا سپریم کورٹ ازخود یہ مدت بڑھاسکتی ہے یا نہیں، سپریم کورٹ اگر نیب کورٹ میں ٹرائل کی مانیٹرنگ کرے گی تو کیا اس صورت میں فیئر ٹرائل ممکن ہوگا،اگر عدالت نے شواہد کی بنیاد پر شریف خاندان کیخلاف ریفرنس فائل کرنے کا کہہ دیا ہے تو اس پر ریویو نہیں ہوسکتا ہے۔

کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ تنخواہ کی تعریف پاکستانی قانون میں موجود ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن سڑکوں پربھی ہے اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا رہی ہے، پاناما کیس فیصلے کے سترہ دن بعد نواز شریف نے عدالتی فیصلے پر ریویو پٹیشن دائر کردی ہے،نواز شریف کی ریویو پٹیشن میں کچھ وزن ہے اور انہیں کوئی بڑا ریلیف مل سکتا ہے، اہم بات ہے کہ یہ پٹیشن بہت طویل ہے، اس میں ایک ایک نکتے پر عدالت سے ریویو مانگا گیا ہے، ن لیگ لگتا ہے دونوں طرف سے امیدیں جوڑے ہوئے ہے، ن لیگ سڑکوں پر بھی ہے عدالت بھی گئی ہے، اسلام آباد سے لاہور کے چار روزہ سفر میں نواز شریف نے جگہ جگہ عوام سے رائے لی اور عدالتی فیصلے کوتنقید کا نشانہ بنایا، اب ن لیگ ایک بڑی عوامی رابطہ مہم بھی شروع کرنے جارہی ہے، اب شہر شہر جلسے جلوس کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے، لیکن ساتھ ہی سترہ دنوں بعد نواز شریف نے سپریم کورٹ کے اٹھائیس جولائی کے فیصلے پر نظرثانی کی تین درخواستیں دائر کردی ہیں جس میں کئی اہم قانونی نکتے اٹھائے گئے ہیں اور فیصلے کے بہت سے نکات کو چیلنج کیا گیا ہے۔

عمران خان،سراج الحق اور شیخ رشید کی پٹیشن سے متعلق الگ الگ نظرثانی کی اپیلیں دائر کی گئی ہیں، پانچ رکنی بنچ کی جانب سے نااہلی کے فیصلے، جے آئی ٹی کی تعریف، نگرانی کے عمل اور صفائی کا موقع نہ دیئے جانے کا اعتراض اٹھایا گیا ہے، ایک درخواست میں نوازشریف کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ جب تک نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں آجاتا پانچ رکنی بنچ کے فیصلے پر عملدرآمد روک دیا جائے، نواز شریف کیا اس طرح اپنی نااہلی کے فیصلے پر عملدرآمد روکنا چاہتے ہیں یا نیب کے ریفرنسز کو روکنا چاہتے ہیں، درخواست میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں ان کا کیس بہت مضبوط ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی نظرثانی کی درخواست قبول کرلی جائے گی، اس درخواست میں مزید لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جو فیصلہ دیا وہ اس کے دائرہ سماعت سے باہر ہے اور عدالت کے حکم کے مطابق نیب ریفرنس کی تیاری اور احتساب عدالت میں ٹرائل کی نگرانی کا حکم بھی آئین پاکستان کے آرٹیکل 10/A کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت فیئر ٹرائل ہر شہری کا حق ہے، عدالتی نگرانی فیئر ٹرائل کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، اگر نظرثانی کی درخواستوں کے زیرالتوا رہنے کے دوران سپریم کورٹ کا حکم معطل نہیں ہوتا تو اس سے درخواست گزار کا بنیادی حق متاثر ہوگا، یہ حق اسے آئین دیتا ہے اور اس سے درخواست گزار کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

اس لئے انتہائی احترام کے ساتھ درخواست کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ 28جولائی کا حکم معطل کرے اور حکم امتناع جاری کرے اور درخواست گزار کو عارضی طور پر ریلیف دیا جائے، نواز شریف نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ نااہلی کے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں ہے، فیصلے میں شفاف ٹرائل کے بنیادی حق کو نظرانداز کیا گیا، عدالت نے اپنے اٹھائیس جولائی کے حکم پر عملدرآمد نہ روکا تو اس سے درخواست گزار کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے، بغیر ٹرائل کے نااہل قرار دینا قانون کی نظر میں درست نہیں ہے،قانونی ماہرین پہلے ہی یہ نکتہ اٹھاچکے ہیں کہ نیب ریفرنس کی تیاری اور کورٹ ٹرائل کی نگرانی کا عمل فیئر ٹرائل پر اثر انداز ہوگا، ماتحت عدالت دبائو میں کام کرے گی۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنی دوسری درخواست میں عدالتی فیصلے پر اہم نکتے اٹھائے ہیں، درخواست میں کہا گیا ہے کہ پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا جوا ن کے اختیار کے مطابق نہیں ہے، سپریم کورٹ نے پاناما کیس سننے کیلئے پانچ رکنی بنچ بنایا، بیس اپریل کو عدالتی فیصلے کے بعد وہ پانچ رکنی بنچ ختم ہوگیا، عدالتی فیصلے کے مطابق تین رکنی بنچ کو ہی کیس سننا تھا تو پھر اچانک پانچ رکنی بنچ کیسے بحال ہوگیا اور اس نے فیصلہ بھی دیدیا، یہ بنچ عدالتی دائرہ اختیار کے مطابق نہیں، اٹھائیس جولائی کا فیصلہ تین رکنی بنچ کو کرنا چاہئے تھا، اٹھائیس جولائی کے دستخط شدہ حتمی فیصلے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے ایک ہی مقدمے میں دو مرتبہ فیصلہ سنایا۔

تازہ ترین