• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالیاتی مسائل،اعداد وشمار میں فرق،حکومت نے تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی

اسلام آباد(مہتاب حیدر)اعداد و شمار میں تبدیلی کے الزامات کی تحقیقات اور اس کا حل نکالنے کیلئے حکومت نے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دیدی ہے ۔ دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ اعداد و شمار میں گزشتہ تین لگا تار مالی سالوں سے212ارب تا215ارب اور177ارب روپے تک کا مستقبل بنیادوں پر فرق پایا گیا ہے ۔واضح رہے کہ ہر مالی سال کے آخر میں شماریاتی اختلافات کے حوالے سے تفصیلات حاصل کرنا ایک مستقل روایت بن گئی ہے ۔

اس حوالے سے سیکرٹری خزانہ شاہد محمود نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اس کمیٹی کے پاس اعدادو شمار میں پائے جانے والے فرق کا حل تلاش کرنے کا اختیار ہے ۔پفرا (PIFRA)پراجیکٹ کے تحت2000 ۔2001میں کروڑوں ڈالر خرچ نہیں کیئے گئے اور نہ ہی کاروباری طریقہ کار کو جدید بنا یا گیا ۔اسی طرح اعدادو شمار کے تفاوت کا حل نکالنے کیلئے کوئی طریقہ بھی  وضع نہیں کیا گیا۔مالی سال کے اختتام پر پہلے سال کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔اصولاً ایسے مسائل پہلے ہی حل کر لینے چاہئیں لیکن انہیں حل نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے آخری پیش رفت میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے چیئر مین کمیٹی سلیم مانڈوی والا کی زیر قیادت اس معاملے کو کل(جمعرات ) کمیٹی کے ہونے والے اجلاس تک موخر کر دیا۔وزارت خزانہ کی درخواست 64ارب پی ڈی ایف ایل فنڈ کی دہری بکنگ کے معاملے ترجیحاً ایجنڈے پر رکھا گیا ۔30جون 2017کو ختم ہونے والے مالی سال  پی ڈی ایف ایل کو  بطور نان ٹیکس ریونیو بجٹ خسارے کو کم ظاہر کرنے کیلئے پیش کیا گیا۔وفاقی سطح پرعدم مصالحتی اکائونٹس کے باعث مالی سال 2013۔14میں شماریاتی فرق 215 ارب جس میں 167ارب بھی شامل ہیں تک پہنچ گیا۔

جبکہ چاروں صوبوں کی وجہ سے 48ارب روپے رہا۔شماریاتی فرق   مالی سال 2013۔14 میں جی ڈی پی کا 0.85فیصد رہا ۔حکومت نے 1.5بلین ڈالر سعودی عرب سے بطور تحفہ حاصل کیئے جبکہ بیرونی گرانٹ بھی حاصل کی ۔جب مزکورہ رقم کو بطور آمد ریکارڈ میں شامل کر لیا جائے تو اسے دوبارہ ڈسکرپینسی اکائونٹ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔بہت کوششوں کے بعد بھی متعلقہ اہلکار یہ اوضح نہیں کر سکے کہ عایا یہ رقم شماریاتی اختلافات 2013۔2014 کا حصہ بنایا گیا ہے کہ نہیں۔اصولاً وزارت خزانہ ایک ہی رقم کو دو مختلف ریکارڈ میں شامل نہیں کر سکتی ۔

جبکہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مزکورہ رقم  و 2013۔14 میں بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا ۔وزارت نے کہا کہ جب انہیں سعودی عرب سے رقم ملی تو اسے پی ڈی  ایف ایل میں جمع کر ادیا گیا تھا۔آخری مالی سال 2016۔17 میں حکومت نے رقم کو دو بجلی کے منصوبوں کے شیئر حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا ۔اس طرح حکومت کو 64ارب روپے کی نان ٹکیس ریونیو کے طور پر ادا کیئے گئے ۔اس طرح بجٹ خسارہ کم کیا گیا۔اب باقی ماندہ 93ارب روپے دوبارہ ٹوٹل 157ارب روپے یا 1.5ارب ڈالرپی ڈی ایف میں شامل کر دیئے گئے  جو کہ کسی بھی پبلک یا نجی سیکٹر میں انویسٹ کیئے جاسکتے ہیں۔

تاہم ایک  سابق سیکرٹری  خزانہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام کی طرف سے دی گئی مثال سے اتفاق نہیں کر تے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب رقم ایک مرتبہ فنانس کیلئے استعمال کی گئی ہو اسے اب اخراجات کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے نہ کہ بطور حکومتی نان ٹیکس ریسپٹس۔ایسی صورت میں آئی ایم ایف کو آگے آکر وضاحت کرنی چاہئے کہ کیا اس کو دہری کائونٹنگ یا خسارہ کو شمار کرنے کا ایک نارمل طریقہ کار کا حصہ قرار دیا جائے ۔وزارت خزانہ کے ٹاپ آفیشل نے دی نیوز کو بتایا کہ سعودی عرب ملنے والی گرانٹ رقم کو کیپٹل ریسپٹس کے طور پر ٹریٹ کیا گیا اور اسے لائن آئٹم سے نیچے رکھا گیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ رقم کو مالی سال 2013۔14میں بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا گیا ۔جبکہ اسے فنانسنگ آئٹم کے طور پر ٹریٹ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے تحفہ میں ملنے والی رقم کی جانچ پڑتال کر لی تھی ۔اور اس حوالے سے ہم نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو مطمئن کر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس رقم کو کبھی بھی حکومتی ریونیو کے طور پر نہیں رکھا گیا بلکہ اسے یہ ایک غیر ملکی گرانٹ تھی جسے بیرونی فنانسنگ کے تحت رکھا گیا۔

تازہ ترین