• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منتخب ’’نا اہل‘‘ وزیراعظم، جاری کہانی 70ویں برس میں!

مورخہ 28؍جولائی بروز جمعۃ المبارک، پاکستانی عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5رکنی معزز بنچ نے تاحیات نا اہل قرار دے دیا۔ تاحیات نا اہلی کو ’’ایک بار کی نا اہلی‘‘ کے قانونی تعین کی شکل میں بھی بیان کیا جا رہا ہے!
پاکستانی عوام، فعال فکری طبقات قومی اور سماجی دانشوروں اور قومی پریس کا ردعمل شدید اور موثر ہے، یہ ردعمل ہماری اجتماعی زندگی کے معمولات کو سنجیدگی سے لئے جانے کا حسین ارتقاء سمجھا جا سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم نے ’’نااہل‘‘ کئے جانے کے بعد ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے نظریے سے اپنا ردعمل ترتیب دیا، ان کے مخالفین اس محاذ پر انہیں ان کا ماضی یاد دلانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کر رہے، دونوں رویے متوازی سفر میں ہیں البتہ انسان کسی وقت بھی ’’ڈویلپ ‘‘ ہو سکتا ہے کی فلاسفی مخالفین کے دلائل کی طاقت میں ضعف کا باعث بن سکتی بلکہ بن رہی ہے!
پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم کی موجود کہانی کے رواں رہنے کے سبب موجودہ منتخب وزیراعظم کی ’’نااہلی‘‘ نے پاکستانیوں کے اجتماعی ضمیر کے لاشعوری حصہ ایک ’’در گزر‘‘ کے تحت منتخب حکومت کی ’’آئینی تعمیر و تکمیل‘‘ کا خواب پورا نہ ہونے پر الجھن زدہ ہیں، چنانچہ عدالت عظمیٰ کے ’’آئینی فیصلے‘‘ پر وہ ’’گستاخ‘‘ نہیں ہوئے انہوں نے ’’سکوت‘‘ اختیار کیا جیسا ’’سکوت‘‘ کسی حسرت ناتمام سے جنم لیا کرتا ہے۔
ممکنہ یادداشت کے مطابق نواز شریف پاکستان کے گیارہویں یا بارہویں ’’منتخب وزیراعظم‘‘ ہیں جنہیں قانونی بنیادوں پر اپنے عہدے سے معزول کیا گیا ویسے تو وزیراعظموں کا انجام قتل، قید، جلا وطنی اور رسوائی کے لفظوں سے بھی تحریر کیا گیا، لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، ملک فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خاں جونیجو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی ایسے ابواب کے اب تک کے نمایاں ناموں میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔
28؍جولائی 2017ء بروز جمعۃ المبارک، عدالت عظمیٰ پاکستان کے ’’قانونی فیصلے‘‘ کے نتیجے میں معزول شدہ وزیراعظم کا وقوعہ مختلف النوع سوالات، خیالات، افکار، سوچوں او ربیانیوں کی حساس اور فکر انگیز کہکشائیں تخلیق کر رہا ہے، ان کہکشائوں کا ذہنی مشاہدہ اور تفکر قومی فرض کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ ہمیں آج 2017میں ’’منتخب وزیراعظم‘‘ کے وقوعے سے پیدا شدہ پاکستان کے ’’جغرافیائی اور قومی مستقبل‘‘ کے مجموعی پہلوئوں کا ادراک کرنے میں نتیجہ خیز رہنمائی اور مدد مل سکتی ہے، ہم اپنے وطن کو حقائق کے ترازو میں تولنے کا پُر تعین اندوختہ حاصل کر سکتے ہیں۔
چنانچہ معزول شدہ منتخب وزیراعظم کے وقوعے سے پیدا شدہ سوالات، خیالات، افکار، سوچوں اور بیانیوں کی تحیر اور خوف کے عناصر سے تشکیل شدہ ان کہکشائوں میں خبردار کرتے پیغام بر ستاروں کی جھلکیوں کا ساختیاتی منظر نامہ سامنے لاتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی اہلیہ تہمینہ درانی کے ٹویٹس، تہمینہ نے ان میں ’’چھوٹے بھائی کی آزمائشوں‘‘اور ’’معصوم بچے کی ہلاکت‘‘ جیسی درد آسا کیفیتوں کا ذکر کیا، وسیع ترین قومی تناظر میں یہ وہ پھرتیلی فہم نمائی ہے جسے کائناتی سچائیوں کے پلڑے میں رکھا ہی نہیں جا سکتا، سنگین انسانی خطا کو بدنیتی کے باطنی پیدائشی عمل کا شاخسانہ قرار دینا فی نفسہٖ اس فیصلہ کن المیے کے ساتھ ایک نفس پرستانہ حرکت ہے۔
تحیر اور خوف کے عناصر سے تشکیل شدہ ان کہکشائوں میں خبردار کرتے پیغام بر ستاروں کی جھلکیوں کے ساخیاتی منظر نامے میں بے حد تاریخی سوالات کی نقاب کشائی بھی کی گئی ہے۔ کسی صاحب نظر دانشور نے کہا اور پوچھا ہے ’’سوال مگر یہ ہے کہ جو حلقے کئی برس کی محنت شاقہ کے بعد 28؍ جولائی کی مٹھائیوں تک پہنچے ہیں کیا انہیں دستور میں پیوست کانٹے نکالنے میں دلچسپی ہو گی۔ جن عالی دماغ ہستیوں نے 1989ء میں بے نظیر بھٹو کو راجیو گاندھی سے ملنے پر سیکورٹی رسک قرار دیا، 1999ء میں نواز واجپائی اعلان لاہور کے پرزے اڑا دیئے، خارجہ امور میں پرویز مشرف کے دست راست نیاز اے نائیک کے قتل کی بھنک نہیں پڑنے دی، جنرل محمود درانی کو گھر بھیج دیا، 2009ء میں آصف علی زرداری کو بے دست و پا کر دیا، یوسف رضا گیلانی کو اسمبلی کے فلور پر کہے گئے ایک جملے کی برسوں پہ محیط سزا دی، پرویز رشید کو ایئر پورٹ سے شاہراہ دستور تک گھسیٹا، نواز شریف کے عزائم کو عدالت عظمیٰ کے بڑے دروازے پر مصلوب کر دیا، یہ حلقہ احباب سیاسی اور ریاستی اداروں کو ایک وسیع تر معاہدے کی طرف پیش رفت کی اجازت دے گا؟ دانشور کا اشارہ پاکستانی تاریخ میں پوشیدہ ان کرداروں کی طرف ہے، آج پاکستان کے ہر گلی کوچے میں جن کے متعلق سوالات کا سیلاب بہہ رہا ہے۔
پیغام بر ستاروں سے چند مزید سوالات و افکار مثلاً: ’’چھ افراد نے دو ماہ کی قلیل مدت میں جس طرح اتنا کچھ کرنے کے ساتھ ایک مفصل رپورٹ بھی مرتب کر ڈالی، وہ ممکن نہیں الا ّیہ کہ انہیں ماورائی خصوصیات کا حامل مان لیا جائے۔ ابتدا میں سب اندازے یہی تھے کہ جے آئی ٹی کو مزید وقت درکار ہو گا۔ یہ اندازے غلط ثابت ہوئے، مجھے اس کی کوئی تاویل اس کے سوا دکھائی نہیں دیتی کہ جے آئی ٹی کو ایک یا ایک سے زیادہ منظم اداروں کی مدد حاصل تھی اور اس ادارے یا اداروں نے بھی ایک مدت سے یہ معلومات جمع کر رکھی تھیں جنہیں وہ کسی مناسب وقت پر استعمال کرنا چاہتے تھے، اب وہ وقت آ گیا۔ یہ بات ایک مفروضہ بھی ہو سکتی ہے لیکن بصورت دیگر یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اتنا سارا کام اس سرعت کے ساتھ اس قلیل وقت میں کیسے ہو گیا؟ یہ ایک غالباً سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے البتہ ’’نا اہل وزیراعظم‘‘ کی جانب سے ان دنوں کے بعض ’’اظہاریوں ‘‘ نے اس سوال کو ایک ’’حقیقی تاثر‘‘ کی صورت گری کرنے میں کافی پیداواری کردار ادا کیا ہے۔
کالم کی گنجائش تمام ہوئی مگر بات ابھی جانے کہاں تک جانی ہے۔

تازہ ترین