• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان میں آجکل اوبون یاسمی کا ہفتہ جاری ہے اس ہفتے میں لوگ اپنے آبائی گھروں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے پیاروں اور بزرگوں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں ،ان ہی چھٹیوں کی مناسبت سے سفارتخانہ پاکستان کی سرپرستی میں پاکستانی اور جاپانی کمیونٹی نے پاک جاپان دوستی فیسٹیول کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا اس فیسٹیول کو ٹوکیو کے مرکز میں واقع وینو پارک میں منعقد کیا گیا تھا جہاں ہر روز ہی لاکھوں کی تعداد میں سیاح سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں لہٰذا اس جگہ پر فیسٹیول منعقد کرنے سے ہر روز ہی ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی و جاپانی اور غیر ملکی سیاح بھی شرکت کرتے اور پاکستان کے کلچر اور ثقافت سے متعارف ہوتے،اس فیسٹول کا انعقاد اس طرح کیا گیا تھا کہ چودہ اگست کوفیسٹیول کا آخری روز ہو اور پاکستانی پرچم کشائی کی تقریب بھی یہاں منعقد ہوسکے اور آج چودہ اگست کا دن تھا پاکستان کا جشن آزادی تھا ،آزادی کے ستر برس مکمل ہوچکے تھے اور آج ٹوکیو کے اس وینو پارک میں پاکستان جاپان دوستی فیسٹیول کا پانچواں اور آخری روز تھا ،موسم بھی انتہائی خوشگوار ہوچکا تھا ، پارک میںایک جانب پاکستانی کھانوں کے اسٹالز موجود تھے جہاں طویل قطاروں میں کھڑے جاپانی اور پاکستانی شہری اپنی باری کے انتظار میں تھے جبکہ دوسری جانب جاپانی کھانوں کے اسٹالز تھے وہاں بھی کافی رش نظر آرہا تھا جبکہ پارک کے مرکز میں خوبصورت اور بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا جہاں پانچوں دن جاپانی اور پاکستانی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیے رہے ۔ منتظمین کے مطابق کئی لاکھ شرکاء نے فیسٹیول میںشرکت کی ،پاکستان سے خصوصی طور پر بلائے گئے قوال گروپ جوجی علی خان نے پانچوں دن نصرت فتح علی خان اور راحت فتح علی خان کی قوالیوں کے ذریعے سننے والوں سے خوب داد وصول کی جبکہ جاپانی اور پاکستانی شائقین کے بھنگڑوں نے بھی خوب رنگ بکھیرے ، جبکہ افتتاحی روز جاپان کے عالمی شہرت یافتہ سابق ریسلر اور رکن پارلیمنٹ اور پاک جاپان دوستی کی پہچان محمد حسین انوکی کی شرکت اور پاکستان زندہ باد کے نعروں نے لوگوں کو گرما دیا ، آج چودہ اگست کا دن تھا سفیر پاکستان ڈاکٹر اسد مجید خان جو ماضی میں جاپان میں پاکستانی سفارتخانے میں بطور تھرڈ اور سیکنڈ سیکرٹری خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور اب ایک بار پھر بطور سفیر جاپان میں تعینات ہیں ۔ڈاکٹر اسد مجید خان بہترین جاپانی زبان بولتے ہیں اور پڑھ بھی لیتے ہیں جس کی وجہ سے جاپانی حلقوں میں انھیں پسند بھی کیا جاتا ہے اور ان کا کافی اثر وسوخ ہے اس لئےکئی جاپانی سرکاری حکام بھی فیسٹیول کی پرچم کشائی تقریب میں شرکت کیلئے آئے ۔ سفارتخانہ پاکستان میں پرچم کشائی کی تقریب صبح منعقد ہوگئی تھی تاہم اب فیسٹیول میں ایک بار پھر پاکستانی پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہونے جارہی تھی تقریباً چار بجے پہلے جاپانی ترانہ بجایا گیا جس کے بعد پاکستانی ترانے پر سفیر پاکستان ڈاکٹر اسد مجید نے پرچم کشائی کی ،سفارتخانہ پاکستان میں ہونے والی پرچم کشائی کی تقریب میں سو سے زائد افراد اور سفارتی حکام شریک تھے جبکہ شا م کو وینو پارک میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں ایک ہزار سے زائد جاپانی و پاکستانی افراد نے شرکت کی اور پاکستانی ترانے کے احترام میں نہ صرف کھڑے ہوئے بلکہ خاموشی بھی اختیار کی ،اس تقریب میں بڑی تعداد میں پاکستانی و جاپانی شہری پاکستانی پرچموں کی بنی ہوئی پوشاک پہنے نظر آئے تو کسی نے پاکستانی پرچم کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا رکھا تھا تو کسی نے پرچم اٹھایا ہواتھا کسی نے اپنے چہرے پر پاکستانی پرچم نقش کرایا ہوا تھا غرض جاپان میں ہونے والی اس تقریب میں ہر جگہ پاکستان ہی پاکستان نظر آرہا تھا ،یہ کسی بھی پاکستانی کے لیے باعث فخر بات تھی، تقریب اختتام پذیر ہوچکی تھی لوگ واپسی کی تیاریوں میں مصروف تھے اندھیرا بھی ہوگیاتھا لیکن میر ی سوچ اصل پاکستان پر مرکوز تھی ،پاکستان کو قائم ہوئے ستر برس مکمل ہوگئے ہیں ،دیگر قوموں پر نظر ڈالیں تو ان کا طویل ماضی نظر آتا ہے لیکن پاکستان تو ستر برس قبل قائم ہوا اور بھارت میں مقیم مسلمان ہجرت کرکے پاکستان پہنچے جبکہ پاکستان میں جو لوگ پہلے سے آباد تھے وہ بھی پاکستانی قوم نہیں تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد ہی وہ پاکستانی قوم کا حصہ بنے ، ستر برس کی عمر کسی بھی ملک یا قوم کے لیے کوئی بہت بڑی عمر نہیں ہوتی ،لیکن ان ستر برسوں میں ہم بہت دفعہ ترقی کی سمت جانے والے راستوں سے ہٹ کر تباہی کے راستوں پر جاچکے ہیں ، کئی دفعہ ہماری قیادت ہی ہمیں تباہی کے ان راستوں پر لے کر گئی ،لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے عوام میں وہ شعور موجود نہیں جو صحیح اور غلط قیادت کا فرق کرسکے ،دنیا کے کئی ممالک ہمارے بعد آزاد ہوئے تاہم آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں اولین سطح پر ہیں جبکہ بدقسمتی سے پاکستان ترقی کے راستے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔بھارت او ر بنگلہ دیش ہمارے لیے بہت بڑی مثالیں ہیں بھارت تو ہمارے ساتھ آزاد ہوا جبکہ بنگلہ دیش نے تو ہم سے آزادی حاصل کی لیکن آج بھارت کا روپیہ تو آگے ہے ہی اب بنگلہ دیش کا ٹکہ بھی پاکستانی روپے سے بہت آگے نکل چکا ہے ، بنگلہ دیش کی صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات ہی ہماری مجموعی برآمدات کو چھورہی ہیں ،بنگلہ دیش کے شہر اور انفراسٹرکچر اپنے تعمیراتی معیار اور صفائی ستھرائی میں بھی کافی آگے نکل گئے ہیں ۔پاکستانی برآمدات کا ہر سال بہت بڑا ٹارگٹ سیٹ کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر سال ہم پیچھے کی جانب ہی سفر کررہے ہیں ،حالات خراب ضرور ہیں لیکن مایوسی کی بات اس لیے نہیں کہ پاکستان اور پاکستانی ابھی ایک نوجوان ملک اور ایک نوجواں قوم ہیں ، زخم سہنے اور پھر سے ترقی کی جانب تیزر فتاری کے ساتھ سفر کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں لہٰذا امید اور یقین ہے کہ عنقریب پاکستان ایک بار پھر ترقی کی جانب سفر کرے گا اور ترقی یافتہ قوموں میں پاکستان کا شمار ہوگا ، ہمیں بھی یقین ہے آپ بھی یقین رکھئے۔

تازہ ترین