• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اپنے اس کالم میں ایسی ایک شخصیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنی جدو جہد اور محنت کے بل بوتے پر پاکستان کی سفارتی تاریخ میں اپنا نام رقم کروایا ۔ جی ہاں میری مراد پاکستان کے دوست اور برادر ملک ترکی میں دو سال چار ماہ سفیرِ پاکستان کی حیثیت سے فرائض ادا کرنے کے بعد پاکستان کے دشمن ملک بھارت میں ہائی کمشنر کے طور پر فرائض ادا کرنے کی غرض سے انقرہ سے روانہ ہونے والے سہیل محمود سے ہے۔ راقم گزشتہ پندرہ سال سے روزنامہ جنگ میں کالم لکھ رہا ہے لیکن آج تک پاکستان کے سفیر یا پھر کسی دیگر شخصیت کے بارے میں کوئی کالم نہیں لکھا ۔ یہ کالم ویسے بھی ان کی روانگی کے بعد تحریر کررہا ہوں تاکہ کسی کو خوشنود گی یا پھر چاپلوسی کا الزام لگانے کا موقع میسر نہ آئے۔
ترکی میں گزشتہ دو سال اور چار ماہ سے سفیر پاکستان کی حیثیت سے فرائض ادا کرنے والے سہیل محمود کے ساتھ راقم کے مراسم اس وقت سے چلے آرہے ہیں جب انہوں نے فارن آفس جوائن کرنے کےبعد انقرہ میں پاکستان کے سفارت خانے میں خدمات فراہم کرنا شروع کردی تھیں۔ اگرچہ ہمارا بچپن سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایف بلاک میں گزرا لیکن زیادہ ملاقاتیں انقرہ ہی میں ہوئیں۔ سفیر پاکستان سہیل محمود اپنی فرض شناسی اور کام کی وجہ سے صرف ترکی بھر ہی میں مشہور نہیں ہیں بلکہ پاکستا ن کے فارن آفس میں بھی اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں فارن آفس میں اکثرو بیشتر یہ سننے کو ملتا ہے کہ امریکہ ، کینیڈا اوردیگر امریکی ممالک میں پاکستان کے سفارت خانوں میں رات کے وقت (دن رات کا فرق ہونے کی وجہ سے) کام ہوتا ہے لیکن ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں بھی سفیر ِ پاکستان رات گئے تک کام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
سہیل محمود نے اپنے ترکی میں قیام کے دوران اُردو زبان کی ترویج و ترقی کی طرف خصوصی توجہ دی۔ یہ پاکستان کے پہلے سفیر تھے جنہوں نے ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں میں اُردو ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کرتے ہوئے نہ صرف یہاـں کے اساتذہ سے ذاتی طور پر روابط قائم کیے بلکہ طلبا سے بھی ملاقاتیں کیںاوران ڈیپارٹمنٹس کواُردو کی کتابیں بھی بطور تحفہ پیش کیں۔ ان ہی کے دور میں ترکی میں اُردو کی صد سالہ سالگرہ کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی تقریب استنبول یونیورسٹی میں منعقد ہوئی تھی جس کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کیلئے اپنا بھر پور تعاون فراہم کیا تھا اور پھر سفیر پاکستان ہی کی درخواست پر حکومتِ پاکستان نے ’’ترکی میں اُردو کی صد سالہ سالگرہ کی تقریبات‘‘ کے دائرہ کار میں ڈاک ٹکٹ کا اجراء بھی کیا ۔ سفیر پاکستان سہیل محمود نے اپنے ترکی میں قیام کے دوران ترکی کی وزارتِ تعلیم کے تعاون سے ہر سال باقاعدگی سے پاکستان اور قائداعظم محمد علی جناح کے زیر عنوان ترکی کے ہائی اسکولوں میں مقابلہ مضمون نگاری کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے ترک بچوں میں پاکستان اور قائد اعظم کے بارے میں لکھنے اور ریسرچ کرنے کا شوق پیدا ہوتا رہے گا۔ ترکی کی وزارتِ تعلیم کے تعاون سے ایوارڈ دینے کی تقریب وزارتِ تعلیم ہی میں منعقد ہوتی ہے اور ترکی کے وزیر تعلیم دیگر ممتاز شخصیات کے ہمراہ پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا اور طالبات کوانعامات تقسیم کرتے ہیں۔ یہ شاید ترک طلبا میں کسی غیر ملک اور اس کے رہنما کے بارے میں باقاعدگی سے منعقد ہونے والی واحد اور منفرد تقریب ہے اور اس کا سہرا سہیل محمود کے سر ہی جاتا ہے۔سفیرپاکستان سہیل محمود کے دور میں پاکستانی طلبا کو ترکی کی یونیورسٹیوں میں اسکالر شپ کے مزید مواقع ملنے لگے ۔ کسی دور میں بہت ہی کم تعداد میں پاکستانی طلبا ترکی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے لیکن سفیر پاکستان سہیل محمود کی کاوشوں کے نتیجے میں پندرہ سو سے زائد طلبا اب ترکی کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ ہر سال اب ان طلبا کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی کے اعلیٰ تعلیمی ادارے ’’ یوک‘‘ نے ترکی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کو پاکستان میں روزگار فراہم کرنے کے منصوبے پر بھی کام کرنا شروع کردیا ہے اور ترکی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا اب پاکستان میں حکومتِ ترکی کی جانب سے فراہم کی جانے والے منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ سہیل محمود سے قبل پاکستانی سفیر ہارون شوکت نے اگرچہ ترکی میں پہلی بار مینگو فیسٹیول منعقد کرواتے ہوئے پاکستانی آموں کو ترکی میں متعارف کروایا تھا لیکن سہیل محمود نے ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے اس فیسٹیول کو ہر سال باقاعدگی سے منعقد کرواتےہوئےایک روایتی فیسٹیول کی حیثیت دلوائی اور ترک باشندوں میں مینگو کی چاشنی اور مٹھاس کو متعارف کرواتے ہوئے ان کے دل جیتنے کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے۔
سفیر پاکستان سہیل محمود سے قبل اگرچہ ترکی اور پاکستان کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون تو موجود تھا لیکن ان کے دور میں بڑی تعداد میں ڈاکٹروں نرسوں اور طبی ماہرین کی باقاعدہ ٹریننگ کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے صحت کے شعبے میں تعاون کی نئی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
جیسا کہ میں اس سے قبل عرض کرچکا ہوں سفیر پاکستان سہیل محمود اس سے قبل بھی ترکی میں سفارت کار کے طور پر اپنی خدمات فراہم کرچکے ہیں اس لئے ان کو ترک زبان پر دسترس حاصل ہے اور وہ عام طور پر ترک باشندوں کی موجودگی میں ترک زبان ہی میں خطاب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے ترک باشندے ان کو بے حد پسند کرتے ہیں ۔ ان کو پسند کیے جانے کی ایک دیگر وجہ ان کا بڑا ملنسار، نرم مزاج اور دوستوں کا دوست ہونا ہے۔ سفیر پاکستان Down to earth ہونے کی وجہ سے پاکستانی طلبا میں بھی بے حد پسند کیے جاتے ہیں اور شاید ان ہی کے دور میں پاکستانی طلبا نے بڑی تعداد میں ثقافتی شوز منعقد کرتےہوئے ایک ریکارڈ بھی قائم کیا۔ سفیر پاکستان سہیل محمود کی کامیابی کی میرے ذاتی خیال کے مطابق ان کا امور کی انجام دہی کے دوران مکمل طور پر خود دلچسپی لینا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا ہے جب تک اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جائے ۔ ترکی میں متعین سفیر پاکستان سہیل محمود اب بھارت ہائی کمشنر کے طور پر فرائض کرنے کی غرض سے روانہ ہو رہے ہیں ۔ اگرچہ بھارت میں ترکی کے مقابلے میں ان کو مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لیکن مجھے یقین ہے کہ اپنے دھیمے مزاج کی بدولت مشکلات پر قابو پانے میں ہمیشہ کامیاب رہیں گے۔ اللہ آپ کو حفظ و امان میں رکھے۔ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ آپ وہاں بھی دن رات پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ جہاں رہیں خوش رہیں۔

تازہ ترین