• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امام ابن جوزی ؒ نے ایک نہایت ہی سبق آموز واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا دسترخوان اللہ کی نعمتوں سے بھرا ہوا تھا اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی کہ اللہ کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو اُس رئیس نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ سارا دسترخوان اُس فقیر کی جھولی میں ڈال دو شوہر کے حکم کی تعمیل میں عورت کھانا لے کر دروازے پر گئی اُس کی نظر جب فقیر کے چہرے پر پڑی تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگی، شوہر نے بیوی سے پوچھا، بیگم آپ کوکیا ہُوا ہے؟ بیوی نے جواب دیا کہ جو شخص فقیر بن کر ہمارے دروازے پر آیا تھا وہ چند سال پہلے اِس شہر کا سب سے بڑا مالدار شخص، اِس کوٹھی کا مالک اور میرا سابق شوہر تھا چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں دسترخوان پر ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے اِتنے میں ایک فقیر نے دروازے پر صدا لگائی کہ میں دو دن سے بھوکا ہوں اللہ کے نام پر کھانا دے دو میرا سابق شوہر دسترخوان سے اُٹھا اور اس فقیر کی پٹائی کر کے اُسے لہولہان کردیا، اُس زخموں سے چُور فقیر نے نہ جانے کیا بددُعا دی کہ ہمارے حالات بگڑتے گئے اور کاروبار ٹھپ ہوگیا میرا سابق شوہر بالکل قلاش ہوگیا اُس نے مجھے بھی طلاق دے دی اس واقعہ کے چند سال بعد میں آپ کی زوجیت میں آگئی، شوہر نے بیوی کی باتیں سنیں اور کہا، بیگم کیا میں آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات بتائوں؟ بیوی بولی ضرور بتائیں، شوہر بولا کہ جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ میں ہی تھا۔ یہ واقعہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنے، کسی بے کس کو دھتکارنے، مجبور اور بے سہارا پر تشدد کرنے، دوسروں کے حقوق کی بجائے اپنے حقوق کی تگ و دو کرنے، نہتے اور بے گناہ شہریوں کو خون میں لت پت کرنے، کسی کو بلا وجہ گولیوں سے بھون ڈالنے، امیر کا احترام اور غریب پر ظلم کرنے، قانون اور معاشرے کا تمسخر اُڑانے، اسمبلیوں پر حملہ کرنے، وعدوں کی پاسداری نہ کرنے، جن نعروں کے زیر اثر لا کر عوام کو ووٹ دینے پر مجبور کیا اُن کی خواہشات کو رد کرنے کا اثر سامنے نظر آئے گا، ہمارے عوام بھی عجیب طبیعت کے مالک ہیں، پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی سے تو نہ بچا سکے لیکن شہید کی برسی منانا نہیں بھولتے، مرتضیٰ بھٹو کی بہن محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم ہیں اور بھائی کو گھر کے پاس گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے، قاتل کا آج تک کوئی پتا نہیں، تو یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ پاکستان کا یا پاکستان کی وزیراعظم کس قدر بے اختیار ہوتے ہیں؟ پاکستانی عوام کا کچھ حصہ مرتضیٰ بھٹو کو آج تک فراموش نہیں کر سکا، اور نہ ہی پاکستانی عوام کے دلوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو نکل سکی ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل ابھی تک کیفر کردار تک نہیں پہنچے اِس کے باوجود بیچارےعوام محترمہ کے لواحقین پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں صوبائی حکومت کی ملکیت دے دیتے ہیں۔ کچھ دِن پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کوعدالتوں کی طرف سے نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا گیا ،عوام کچھ نہ کر سکے ،اب میاں محمد نواز شریف اسلام آباد سے لاہور بذریعہ جی ٹی روڈ اپنے کارواں کے ساتھ نکلے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُن کے استقبال کے لئے سڑکوں پر اُمڈ آیا، تا حد نظر عوام ہی عوام تھے۔ ایک جمہوری وزیراعظم کے خلاف رٹ دائر ہوئی تھی کہ اربوں ڈالرز کے گھپلے ہیں، پانامہ لیکس اسکینڈل سامنے ہے، سی پیک میں کرپشن ہوئی ہے، اسحاق ڈار کی علیحدہ سے کرپشن، سزا تو اِن الزامات کے تحت ملنی یا نہیں ملنی تھی لیکن اس کے بر عکس دس ہزار درہم کا ایک نیا الزام پیدا کر کے اُس کی سزا کے طور پر وزیر اعظم کو نا اہل کر دیا گیا، اِس نااہلی کو اہل ثابت کرنے کے سفر کے دوران سابق وزیراعظم کے کارواں نے ایک بچے کو کچل دیا، چاہئے تو یہ تھاکہ اُس بچے کے اہل خانہ سے جا کر ملا جاتا، اُن کی ڈھارس بندھائی جاتی، اُنہیں مالی امداد دی جاتی، اُن سے معافی مانگی جاتی، مگرایسا نہیں ہوا اوراُس بچے کو جمہوریت کی بحالی کے سفر کا پہلا شہید ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا گیا؟ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ’’ترکی‘‘ میں ہونے والی بغاوت کو نہتے ترکش عوام نے ناکام بنایا تھا، کیا یہ سب کچھ سب نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا؟ کسی بھی ملک کی طاقت کا سر چشمہ وہاں کے عوام ہوتے ہیں، اور جب عوام چاہتے ہی نہیں کہ اُن کے حقوق کا تحفظ کیا جائے تو کون ہوگا جو از خود آکر عوامی حقوق کا تحفظ کرے گا۔ ہمارے عوام بیچارے ابھی تک اِس بات کا جواب تلاش نہیں کر سکے کہ ’’مجھے کیوں نکالا گیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ سوال بلا وجہ ہے، عدالت عظمیٰ نے جُرم بتا کر ہی سابق وزیراعظم کو حکومتی ایوانوں سے نکالا اور انہیں تا حیات نااہل قرار دیا ہے۔ ویسے پاکستانی تھنک ٹینکس بتاتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف دوبارہ سے بحال ہو جائیں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو ملکی حالات ٹکرائو کی طرف جائیں گے اور اِس ٹکرائو کا سدباب کرنے کے لئے کسی اور کو دخل اندازی کرنا پڑے گی۔ اپوزیشن کی جماعتیں اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لائیں گی جس سے تصادم کا خطرہ بڑھے گا اور اِ س خطرے کے پیش نظر بہت سی تبدیلیاں آنے کی خبریں بھی پاکستان میں گردش کر رہی ہیں۔ اگر مسند پر بیٹھے ہوئے وزیراعظم عوام کے دلوں میں حکومت کرتے تو انہیں اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو یہ کہنے کی قطعاً ضرورت نہ پڑتی کہ تمہارے ذمے اتنے ہزار آدمی ہیں جو جی ٹی روڈ پر میرے استقبال کے لئے پہنچیں گے، بلکہ عوام خود سابق وزیراعظم تک پہنچ جاتے اور اُن کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا حساب لے لیتے۔ سابق وزیراعظم یا اُن کے اہل خانہ سے نہ جانے کون سی غلطی ہوئی ہے یا اُنہوں نے اپنے دروازے پر آکر صدا لگانے والے کس شخص کو دھتکارا ہے کہ جس کی بددُعا کے اثر سے ’’کل کا شاہ‘‘ آج مجبور ہو کر جی ٹی روڈ پر عوام سے انصاف مانگنے خود چلا آیا ہے۔ موجودہ اور آئندہ حکومتی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ عوام الناس کے دروازوں پر انہیں انصاف اور سہولتیں مہیا کریں تاکہ کسی کو پاکستان کے ایوانوں کا دروازہ نہ کھٹکھٹانا پڑے اور دروازے پر آنے والے سائل کو مایوس لوٹتے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ سخت نہ ہو جائے۔
تم سے پہلے جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اِسی شہر میں تنہا لئے دِل کو
اِک زمانے میں مزاج اُن کا سر عرش بریں تھا

تازہ ترین