• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اعظم محمد علی جناح اور صدر ضیاء الحق کے بعد یہ واحد شخصیت تھی جس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ یا حیثیت نہ تھی لیکن اس کی تدفین پورے اعزازات اور 19توپوں کی سلامی سے ہوئی، اس کی نماز جنازہ میں جہاں بڑی تعداد میں عام لوگوں نے شرکت کی وہاں صدر مملکت، گورنر ، وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی ، جب یہ شخصیت زندہ تھی تو ان لوگوں کو بھی اپنے ہاتھوں سے غسل دے کر دفناتی تھی جن کی لاشیں سڑ گل جاتی تھیں اور ان کے جسموں سے اٹھنے والی بدبو کی وجہ سے اپنی اولاد اور قریبی عزیز دور بھاگتے تھے، یہ گندے مندے بچوں کو جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا ان کو اپنے بنائے ہوئے گھروں میں لے آتا تھا ان بے آسرا خواتین کو چھت دیتا تھا، جو حالات اور معاشرے کے ستم ظریفوں سے تنہا ہوتیں ، سیکڑوں ہزاروں ایمبولینس گاڑیوں کے ذریعے سارا دن زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر انہیں اسپتال پہنچانا یا ان کے گائوں دیہاتوںمیں جہاں ان کی تدفین ہونی ہوتی پہنچاتا، ہنگامی حالات میں ہیلی کاپٹر کی سہولت بھی پہنچائی جاتی ، جہان فانی سے رخصت ہونے والے عبدالستار ایدھی نے بچپن سے جوانی تک اور پھر بڑھاپے سے موت تک خود کو بے بس انسانیت کی خدمت کیلئے وقف رکھا ، درد دل رکھنے والے سیکڑوں لوگوں کی طرف سے کروڑوں روپے بطور چیرٹی ملنے کے باوجود اپنی زندگی کو انتہائی سادہ رکھا، ایدھی سینٹرز میں غریب اور مسکین بچوں کیلئے پکنے والے کھانے کو انہی کے ساتھ بیٹھ کر تناول کرنا اور ایدھی سینٹرز کے تھڑوں پر بھنبھناتی مکھیوں کی پرواہ کئے بغیر سوجانے والی اس شخصیت کو سپرد خاک کئے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے کہ گزشتہ روز دکھی انسانیت کیلئے درد دل رکھنے والی ایک اور قد آور شخصیت ڈاکٹر محترمہ رتھ فائو بھی اس دنیا سے کوچ کرگئی ہیں، یہ وہ شخصیت ہے جس کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ انہوںنے پاکستان میں کوڑھ کے مرض میں مبتلا مرد و خواتین کا نہ صرف علاج کیا بلکہ ان کیلئے علاج گاہیں بھی بنوائیں، ڈاکٹر رتھ فائو کا تعلق جرمنی سے تھا گو کہ انہوںنے پاکستان کو ہی اپنا ملک اور دھرتی مان لیا تھا اور وہ کہا کرتی تھیں کہ مجھے پاکستان کی مٹی سے پیارے ہے اور میں مر کر بھی اسی مٹی میں دفن ہونا چاہوں گی لیکن وہ جب بھی اپنی جائے پیدا ئش والے ملک جرمنی جاتیں تو اپنی جھولی پھیلا کر لوگوں سے چندہ مانگتیں تاکہ وہ پاکستان واپس آکر ان بے سہارا کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرسکیں جنہیں ان کے ماں باپ یا اولاد تک چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ کوڑھ کا مرض ہوتا ہی ایسا خطرناک ہے کہ آپکا جسم گل کر گرنا شروع ہوجاتا ہے ہڈیاں ٹیڑھی ہوجاتی ہیں اور مریض جہاں اس تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے وہاں اس کے عزیز رشتے دار بھی اس سے دور بھاگنے لگتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ چھوت کا مرض ہوتا ہے اور دوسرا اس مرض میں مبتلا مریض کے جسم سے بدبو بھی آنے لگتی ہے لیکن ڈاکٹر رتھ نے اپنی جوانی اور اپنی ساری خوبصورتی کی پرواہ کئے بغیر اپنے ہاتھوں سے ان مریضوں کا علاج کیا جنہیں ان کے اپنے رشتہ دار چھوڑ جاتے ، عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر رتھ فائو دونوں نے کبھی اپنی ذات کیلئے کسی سے کچھ نہیں مانگا ، حکومتی مراعات یا اعزازات کا تقاضا نہیں کیا، ڈاکٹر رتھ فائو نے کبھی نہیں کہاکہ اس کے والدین نے لاکھوں کے اخراجات کرکے انہیں ڈاکٹر بنایا تھا تاکہ وہ پر تعیش یا سہولیات بھری زندگی گزاریں، ان کے گھروں میں نوکر چاکر ہوں ، پورچ میں چمچماتی گاڑیاں کھڑی ہوں، گرمیوں میں ان کے گھر اور کلینکس یخ بستہ ماحول پیدا کررہے ہوں اور سردیوں میں یہی ماحول گرم اور کوزی ہو، ان کی ساری عیاشی تو بے سہارا لوگوں کو گلے سے لگانا اور کوڑھ جیسے مرض میں تعفن شدہ مریضوں کے زخموں کا اپنے ہاتھوں سے علاج کرنا تھا۔
لیکن آج ہمارے ینگ ڈاکٹرز کو کیا ہوگیا ہے آئے روز تڑپتے مریضوں کو چھوڑ کر احتجاجی مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے مطالبات ناجائز ہیںلیکن اللہ کے بعد بے بس اور لاچار مریضوں کو ان کی کتنی ضرورت ہے جنہیں وہ ہاتھ لگانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے اور ڈاکٹر رتھ فائو اپنی حسین جوانی کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریضوں کیلئے وقف کردیتی ہے میرا خیا ل ہے اید ھی اور رتھ فا ئو سے کچھ تو سیکھنا بنتا ہے۔

تازہ ترین