• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی سربراہی میں تشکیل پانے والی نئی وفاقی کابینہ کو بہت کم وقت میں بڑے اہم کام کرنے ہیں ۔ عام انتخابات سے محض دس ماہ پہلے خصوصی صورت حال کے تقاضوں کی بناء پر حکومت کے کلیدی مناصب میں بڑی تبدیلیاں ہو چکی ہیں لہٰذا وفاقی حکومت کو معاملات میں پیش رفت کے لیے غیرمعمولی کاوشیں کرنا ہوں گی۔وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے ہی خطاب میں واضح کردیا تھا کہ انہیں ان حقائق کا پورا احساس ہے اور وہ مہینوں کا کام دنوں میں نمٹانے کا عزم رکھتے ہیں۔وزیر اعظم کے حالیہ دورہ کراچی و حیدرآباد میں سندھ کے ان اہم ترین شہروں کے لیے دیے گئے ترقیاتی پیکیج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اس عزم کے مطابق آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی کارروائی سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاناما لیکس کے بعدحکومت کی بیشتر توجہ اور توانائیاں اس جانب صرف ہونے کے سبب متعدد اہم امور کے حوالے سے پیش رفت میں جو فرق پڑا تھا، اب اس کے اِزالے کا تہیہ کرلیا گیا ہے۔کابینہ کا اجلاس ہر منگل کو منعقد کرنے کے فیصلے سے اس امر کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔ ملک میں امن وامان کو مستقل طور پر یقینی بنانے کے لیے خودکار ہتھیاروں پر پابندی کی ضرورت بالکل واضح ہے کیونکہ دہشت گردی، قتل وغارت گری، لوٹ مار، ڈکتیاں، گینگ وار وغیرہ جیسے تمام جرائم خودکار ہتھیاروں کے بل پر ہی کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عباسی پارلیمان میں پہلے ہی دن اس اقدام کی اہمیت اور ضرورت واضح کرچکے ہیں۔ چنانچہ کابینہ کے اجلاس میں یہ مسئلہ ترجیحی طور پر زیر غور آیا۔سیکریٹری داخلہ نے اس معاملے کے قانونی پہلوؤں پر کابینہ کو بریفنگ دی جس کے بعد اس معاملے کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سربراہی وزیر اعظم خود کریں گے۔ خودکار ہتھیاروں پر پابندی کی تجویز کے اصولی طور پر بالکل درست ہونے کے باوجود اس کے عملی نفاذ میں بہرحال بہت سی دشواریاں حائل ہیں جن پر قابو پانا ہوگا۔ ماضی میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں ، اب اگر موجودہ وفاقی حکومت اس ہدف کو حاصل کرسکے تو یہ یقیناًایک بڑا کارنامہ ہوگا ۔ کابینہ میں کراچی اور حیدرآباد پیکیج کی جو تفصیلات پیش کی گئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاق نے سوا چار سال کی مدت ختم ہوجانے کے بعدشہری سندھ کو اپنی توجہ کا حق دار سمجھا ہے۔یہ پیکیج دو تین سال پہلے دیا گیا ہوتا تو اب تک کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہوتے یا تکمیل کے قریب پہنچ رہے ہوتے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف کراچی اور حیدرآباد کی ڈھائی کروڑ آبادی کے بہت سے مسائل حل ہوگئے ہوتے بلکہ وفاق میں حکمراں جماعت کے لیے بھی لوگوں میں بہت اچھے جذبات پائے جاتے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی اس اقدام کے نتائج یقیناًخوشگوار ہوں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان منصوبوں کو تعطل اور تاخیر کاشکار نہ ہونے دیا جائے اور ان کی بروقت تکمیل یقینی بنائی جائے۔داخلی صورت حال کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عباسی اور ان کی کابینہ کو بیرونی محاذ پر بھی بہت کام کرنا ہے۔ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی ہے ، اس موقع کو امریکہ کو خطے کے زمینی حقائق کا احساس دلانے ، افغانستان میں امن کے لیے مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے اور اس میں پاکستان کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے بطریق احسن استعمال کیا جانا چاہئے۔ کشمیر میں بھارت سے آزادی کی عوامی جدوجہد اور اسے کچلنے کے لیے بھارتی فوج کے مظالم کو بین الاقوامی فورموں پر بھرپور توانائی اور تیاری کے ساتھ اٹھایا جانا بھی موجودہ وفاقی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے جبکہ معاشی صورت حال خصوصاً برآمدات میں مسلسل کمی اور بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ فوری اصلاحی اقدامات کا متقاضی ہے۔ امید ہے کہ کابینہ کے آئندہ اجلاسوں میں یہ تمام معاملات زیر غور آئیں گے اور ان میں تیزرفتار پیش رفت کا پورا اہتمام کیا جائے گا۔

تازہ ترین