• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے پاکستان میں صاحبان عدل و اختیار کی طرف سے جو باتیں ایک ہی وقت المیے کی حد تک حیرت ناک اور مضحکہ خیز ہوتی ہیں اس میں تازہ ایک عدد بات کا گولہ یہ چھوڑا گیا ہے کہ مرحوم دو قومی نظریے کے حوالے سے (مرحوم اس لئے کہ وہ نظریہ اس دن ہی خلیج بنگال میں ڈوب گیا تھا جب یحییٰ خانی آپیشاہی نے ملک دو لخت کیا تھا) کہ ’’دوسری قوم‘‘ یعنی ہندوئوں کا نام بھی نہیں لینا چاہتے۔ مجھے لگا کہ کوئٹہ کے وکیل ایک دفعہ پھر قتل کردئیے گئے ہیں۔ ہاں شاید اگست گیارہ سے دو چند روز پہلے فرمایا گیا جو کہ وہ دن ہے جب ملک کے بانی نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں اپنی مشہور لیکن تاحال لاپتا تقریر کی تھی ’’کہ آج سے آپ سب برابر کے پاکستانی شہری ہیں۔ آپ میں سے نہ کوئی ہندو ہے، نہ مسلمان اور عیسائی۔ آج سے آپ سب اپنی اپنی عبادتگاہوں کوجانے میں آزاد ہیں....‘‘
لیکن وہ چاہتے تو ’’ہندو‘‘ کا نام اپنی زبان سے نہیں لیتے لیکن ان کی نظر میں پاکستان کے شہری سب برابر کے درجے پر تھے۔اب یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی ایک ہندو تھے جسے اس ملک کے بانی نے ہی نامزد کیا تھا۔
شاید یہ تم میں سے بہت سوں کو معلوم نہ ہو کہ کراچی میں سندھ کے درویش سماجی خدمتگار اور اسکالر سادھو ٹی ایل واسوانی بھی ہندو تھے جنہوں نے ملک کے قائد کی وفات والے دن گیارہ ستمبر کو ان کے سوگ میں ’’برت‘‘ یا روزہ رکھا تھا اور قرآن مجید کی تلاوت کی تھی۔ دادا ٹی ایل واسوانی وہ ہستی تھے جنہوں نے پاکستان بننے کے وقت اپنے پیروکاروں سےکہا تھاکہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر ہندوستان مت جائیں اور پاکستان میں رہ کر اپنے نئے وطن اور ملک کی خدمت کریں۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ان کے معتقدین میں سے اکثر اپنا ہزاروں برسوں کا وطن اور مٹی چھوڑ کر ہندوستان نہیں گئے۔ ان کے معتقدین میں سے سندھ کے انیسویں صدی کے بڑے مخبر رشی دیواند دیا رام گدو مل بھی تھے جن کے نام پر گدو حیدر آباد ہے۔ جو کہ سندھ اور ملک کی نامور شخصیت پی کے شاہانی کے دادا تھے۔ پی کے شاہانی ایک ماہر زراعت اور سیاسیات تھے۔ پی کے شاہانی ہی تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں وزیر بنے تو ہندو کمیونٹی کو پاسپورٹ جاری کروایا تھا۔ پی کے شاہانی نے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت بننے پر ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان ہونیوالا معاہدہ کراچی پی پی پی کی طرف سے تحریر کیا تھا۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ وہ اتنے قابل شخص تھے کہ اگر وہ ہندو نہ ہوتے تو سندھ کے تب وزیر اعلیٰ ہوتے۔
سادھو ٹی ایل واسوانی کی دوسری معتقد شخصیت سندھ کی انتہائی قابل احترام تعلیم دان دادی لیلیٰ تھیں جن کا سندھ میں لڑکیوں کی تعلیم عام کروانے میں بہت نمایاں کردار رہا۔ حیدرآباد کے تاریخی میراں گرلز اسکول اور لیڈیز کلب دادا ٹی ایل وسوانی کا قائم کردہ ہیں۔
کراچی اور حیدرآباد کی کئی عمارتیں ڈیا آرام گدومل کی املاک تھیں جن کا زیادہ مصرف سماجی کاموں میں وقف تھا۔ اور اب بھی ہے۔
لیکن سادھو ٹی ایل واسوانی کو بھی ملک کے بانی کی وفات کے بعد پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں بھی بدنام زمانہ سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند رکھا گیا تھا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ ایک ایسا ہتھیار تھا جس کا بے دریغ استعمال اقلیت سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات اور سیاسی اختلافات رکھنے والوں پر کیا گیا۔ انہیں کہا گیا تھا کہ یا تو ملک چھوڑ جائو یا پھر سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل کیلئے تیار ہو جائو۔ پہلے پہل سیٖفٹی ایکٹ کی زد میں سندھی زبان کے ادیب اور سندھ کے ہاریوں میں کام کرنے والے گوبند مالہی آئے پھر کیرت بابانی اور حشر کیولرامانی بھی جو کہ سندھ اور ہند کی تاریخ میں ایک بہتر دماغ تھا۔ شاید اسی دھمکی میں ترقی پسند رہنما اور مصنف سجاد ظہیر کو بھی ملک چھڑوایا گیا تھا۔ لیکن سندھ کے سوبھو گیان چندانی ایسے ترقی پسند سپوت تھے جنہوں نے سیفٹی ایکٹ ہو کہ ڈیفنس آف پاکستان یا بغاوت کے مقدمے ملک چھوڑنے سے ہمیشہ ہی انکار کیا۔ کہتے ہیں کہ سوبھو گیان چندانی کا اکلوتا بیٹا کنعیو گیان چندانی جب اپنے رشتہ داروں سے ملنے بھارت گیا تو دوران قیام اس نے اپنے بھارتی ویزےمیں توسیع کی درخواست دی تھی تو بھارتی زعما نے سوبھو کے بیٹے کے ویزہ میں توسیع کی درخواست کی سخت مخالفت کی اور یہ مسئلہ انڈین لوک سبھا تک گیا جہاں متعصب اراکین نے کہا تھا کہ سوبھو کی پارٹی (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا) نے پاکستان کی حمایت کی تھی اس لئے اس کے بیٹے کو ویزہ نہیں دیا جا سکتا۔ اگر سوبھو پاکستان چھوڑ کر بھارت نقل وطنی کر جاتے تو بھارت میں کم از کم کسی ریاست کے گورنر یا نائب صدر ہو سکتے تھے۔ ماقبل تقسیم سیاست میں ان کے ساتھی اندر کمار گجرال اور نائب صدر وی وی گری بہت جونیئر تھے۔ لیکن سوبھو نے پاکستان کو ترجیح دی پھر اس کی جیلوں میں ہی کیوں نہ سہی۔لیکن اسکے علاوہ پاکستان کے صاحبان اختیار نے سوبھو سے کیا سلوک کیا! کہ اسکے اکلوتے بیٹے کی مہلک بیماری کے علاج کے اخراجات کے واسطے سوبھو کو اپنی عمر بھر کا اثاثہ اسکی ذاتی لائبریری کی ہزاروں کتابیں سندھ کے محکمہ ثقافت کو فروخت کرنا پڑیں جنہوں نے ان سے اونے پونے داموں خریدیں گو کہ ان میں کئی لاکھوں کی مالیت کی بے بہا اور بے شمار نایاب کتابیں بھی تھیں۔
ایسے ایک وطن کی مٹی گواہ رہنا جیسے کردار صحافی گرداس وادھوانی کا تھاجنکا تعلق بھی متمول گھرانے سے تھا اور انکا تمام خاندان بھارت منتقل ہوا لیکن وہ وطن نہ چھوڑنے پر بے گھر رہے آخر عمر میں کراچی پریس کلب کو ہی اپنا گھر بنایا۔ انکو کراچی پریس کلب کے سینئر اراکین سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔
جناب والا زیادہ دور کیوں جائیں عظیم منصف جج اور انسان رانا بھگوان داس کی مثال لیں جو اس ملک کے دبنگ قائمقام چیف جسٹس رہے ہیںجنہوں نے مشرف جیسے فوجی آمر کی طرف سے کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک میں عدلیہ اور انصاف کا بول بالا رکھا۔ رانا بھگوان داس اپنے سب جج ہونے سے لیکر قائمقام چیف جسٹس ہونے تک ایسے ہی بہادر انتہائی غیر ریاکار جج تھے۔ رانا بھگوان داس کا اسلامی علوم و شریعہ اور پاکستان کے آئین پر عبور حیرتناک تھا۔
سیاست ہو کہ کوئی بھی شعبہ، فہرست طویل ہے۔ پھر وہ ڈاکٹر ادیب رضوی کے قافلے کے ساتھی ڈاکٹر مرلیدھر ہو کہ تحریک انصاف کے لال مالہی، مسلم لیگ نون کے کھیئل داس ہوں کہ پی پی پی کے ڈاکٹر کھٹو مل، کہ تھر کے ڈاکٹر سونو کنگنا رانی یا کرشن شرما۔ کہ ادیب ولی رام ولبھ یا پھر ممتاز بھٹو کی حکومت کے دنوں سے لیکر آج تک غائب شدہ انجینئرنگ کا استاد اشوک کمار ہو کہ پاکستان فضائیہ کے ایئر کموڈر کے بلوچستان سے انیس سو تہتر سے غائب شدہ بیٹے جانی ٹی داس۔
مٹی کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے....

تازہ ترین