• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں چار پانچ چھٹیاں اکٹھی ہوگئیں، چھٹی کے پہلے روز میں سوکر اٹھا تو حسب عادت شیو کے سامان کے ساتھ میں آئینہ کے سامنے جا کھڑا ہوگیا مگر میں نے محسوس کیا کہ میرا شیو کرنے کو جی نہیں چاہ رہا، میں نے سوچا اتنے عرصے سے رسم دنیا نبھارہے ہیں، آج اگر نہیں نبھائیں گے تو کیا فرق پڑے گا؟ چنانچہ میں صرف ہاتھ منہ دھو کر اپنے کاموں میں مشغول ہوگیا مگر اس روز میرا کام کو بھی جی نہیں چاہ رہا تھا۔ بس جی چاہتا تھا کہ مزے سے بے سدھ پڑے رہو، سو میں نے تین دن اسی طرح گزارے، چوتھے روز گھر سے نکلا اور بڑھے ہوئے شیو کے ساتھ کاموں میں مشغول ہوگیا مگر مجھے بالکل احساس نہیں تھا کہ چار دن کا بڑھا ہوا شیو میرے لئے کیسے کیسے مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔
دفتر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جس دوست سے ملاقات ہوئی، اس نے میرے سلام کا جواب دینے کی بجائے کہا’’یار تم نے اپنی حالت کیا بنائی ہوئی ہے‘‘۔
میں نے کہا’’ٹھیک تو ہوں، کیا ہوا ہے مجھے؟‘‘
اس نے کہا’’آئینے میں اپنی شکل دیکھو ، فلموں کے بے روزگار ہیرو لگ رہے ہو۔ مجھے تو ڈر ہے کہ تم ابھی مجھے کاندھوں سے جھنجھوڑ کر کہو گئے کہ ماں! مجھے آج پھر نوکری نہیں ملی!‘‘۔
دوست کے یہ ریمارکس سن کر بے ساختہ میں نے اپنے گالوں پر ہاتھ پھیرا، شیو واقعی خاصا بڑھا ہوا تھا، اتنا کہ اگر خط بنوایا جائے تو اسے باقاعدہ داڑھی قرار دیا جاسکتا تھا، مگر مجھے یہ اسی طرح اچھا لگ رہا تھا میں نے مسکراتے ہوئے اپنے دوست کے کاندھوں پر تھپکی دی اور آگے بڑھ گیا۔
میں ابھی اپنی ڈاک دیکھ رہا تھا کہ دریں اثناء ایک اور دوست میرے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور مختلف زاویوں سے عجیب عجیب شکلیں بنا کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’تم نے اپنی شکل دیکھی ہے؟‘‘
’’کیوں ، کیا ہوا ہے مجھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کیا ہوا ہے؟ مجھے کوئی مثال نہیں سوجھ رہی تم اسپورٹس مین اسپرٹ سے کام لیتے ہوئے خود ہی اپنے آپ کو کسی بری چیز کے ساتھ تشبیہ دے لو!‘‘۔
عجیب واہیات لوگ ہیں‘‘ میں نے دفتر سے واپسی پر ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں داخل ہوتے ہوئے سوچا۔ کیشئر نے میرے خریدے ہوئے سامان کی رسید دیتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہا’’اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک بات کہوں؟‘‘
’’فرمائیں‘‘میں نے جل کر کہا، میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
’’اخبار میں آپ کی تصویر تو خاصی بہتر آتی ہے‘‘۔
’’دھت تیرے کی!‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا اور اسٹور سے باہر آگیا!
اس دوران ایک دوست سے ملاقات ہوئی، اس نے چھوٹتے ہی کہا’’یہ تم نے شیو کیوں بڑھایا ہوا ہے، خیر توہے؟‘‘
’’بس یار جی نہیں چاہ رہا تھا، لہٰذا شیو نہیں کیا‘‘۔
’’نہیں مجھے تو کچھ اور ہی چکر لگتا ہے!‘‘
’’مثلاً؟‘‘
’’یہی کہ کسی لمبے ہی چکر میں ہو، لیکن میرا دوستانہ مشورہ ہے کہ بال بچے دار شخص کو اور سب کچھ کرنا چاہئے، عشق نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
’’مشورے کا بہت بہت شکریہ‘‘ میں نے جل کر کہا ’’مگر اب تو جو ہونا تھا ہوچکا‘‘۔
’’واقعی؟‘‘ دوست نے اپنی کرسی سے اچھل کر کہا۔
’’ہاں! ہاں، ہاں‘‘ میں نے زمین پر پائوں پٹختے ہوئے کہا’’ بلکہ میرا ارادہ تو عقد ثانی کا ہے، تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔
’’توبہ، توبہ، توبہ‘‘دوست نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوے کہا’’میں تو پہلی شادی کے حق میں بھی نہیں ہوں، تم دوسری شادی کا پوچھ رہے ہو؟‘‘۔
’’تو پھر اس مسئلے پر تم سے بات نہیں ہوسکتی‘‘ میں نے اس سے رخصت ہوتے ہوئے کہا۔
دروازے کے پاس پہنچ کر میں دوبارہ واپس آیا اور دوست کے کان میں سرگوشی کی’’مگر دیکھو یار! یہ بات کسی کو بتانا نہیں‘‘۔
’’کون سی بات؟‘‘
’’یہی دوسری شادی والی!‘‘اور پھر میں اسے سخت پریشانی کے عالم میں چھوڑ کر واپس کار میں آکر بیٹھ گیا۔
گھر واپس پہنچتے ہی ٹیلی فون کی گھنٹی بجی’’ٹرن ٹرن ٹرن‘‘
میں نے ٹیلی فون اٹھایا’’یار سنا ہے تم شادی کررہے ہو، بڑے افسوس کی بات ہے!‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا ہے؟‘‘
’’بتایا تو مجھے افضل نے ہے، مگر شک مجھے خود بھی گزرا تھا!‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’یہ جو تم کئی دنوں سے شیو نہیں کررہے‘‘۔
’’تو کیا یہ شرط میرے سسرال والوں نے عائد کی ہے کہ اگر شیو خاطر خواہ طور پر بڑھا نہ ہوا تو بارات واپس کردی جائے گی؟‘‘
’’یہ تو تم جانتے ہو کہ بہرحال جو قدم بھی اٹھانا، سوچ سمجھ کر اٹھانا‘‘یہ کہہ کر اس بدبخت نے فون بند کردیا!
میں ایک اور پیشی بھگت رہا تھا’’یار تمہارے ساتھ دوستی میرے لئے عذاب بن گئی ہے صبح سے تمہاری طرف سے صفائیاں دے دے کر تنگ آگیا ہوں‘‘۔
’’تم یوں کرو‘‘ میں نے اسے پچکارتے ہوئے کہا’’تم یہ صفائیاں دینا بند کردو‘‘ اور پھر ٹیلی فون درمیان ہی میں کٹ گیا۔
میں نہانے کے لئے ابھی باتھ روم جاہی رہا تھا کہ دروازے پر بیل ہوئی راشد سامنے کھڑا تھا۔
’’یار ملک کا کیا بنے گا؟‘‘ اس نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی حسب معمول سیاسی گفتگو شروع کردی۔
’’کیوں خیر تو ہے؟‘‘میں نے پوچھا
’’ٹیلی وژن، چینلز ایک ہی نقطہ نظر ہم پر ٹھونسنے میں لگے رہتے ہیںیہ ایک طرح سے ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے نقطہ نظر سے دستبردار ہوجائیں! یہ کوئی صحافت نہیں ہے‘‘۔
’’تمہارے نزدیک صحافت کی تعریف کیا ہے؟‘‘
’’یہی کہ تمام نقطہ ہائے نظر سامنے آنا چاہئیں اور یہ آزادی محدود نہیں ہونا چاہئے۔
’’بالکل ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا’’اب تم یہ بتائو میرے بڑھے ہوئے شیو سے تمہاری آزادی مجروح تو نہیں ہورہی‘‘۔
’’ارے ہاں، یہ تو میں بھول ہی گیا تھا‘‘ راشد کے لہجے میں تشویش تھی، لوگ تمہارے بڑھے ہوئے شیو کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں‘‘۔
’’مثلا؟‘‘
’’مثلاً ایک تو یہ کہ تمہاری ٹھوڑی کے نیچے ایک گلٹ سا نکلا ہوا ہے جسے چھپانے کی کوشش میں تم داڑھی رکھ رہے ہو اور دوسرا یہ کہ .....‘‘
’’ایک گلٹ اس کے علاوہ بھی ہے؟‘‘ میں نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میں جبراً ہنستے ہوئے کہا ’’چھوڑو، ویسے ہم لوگ ہیں بہت مزے کے ،ہم تحریر و تقریر اور قول و فعل کی مکمل آزادیاں مانگتے ہیں اور اپنے طور پر کسی کو اتنی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اگر شیو نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ میں نے آج کتنے ہی ضروری کام کرنے تھے، مگر وہ سب چھوڑ چھاڑ کر دوپہرہی کو واپس گھر آگیا ہوں اورلوگوں کے سوالوں سے بچنے کے لئے دروازے بند کرکے بیٹھ گیا ہوں۔ یہ وہ نظربندی ہے جسے کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
راشد کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ مجھے اس معاشرتی جبر کے خلاف ایک زبردست احتجاجی تحریک چلانی چاہئے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہو کہ اگر کوئی شخص شیو نہیں کرنا چاہتا تو اسے اپنی اس خواہش پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو مگر پھر میں نے سوچا کہ اس سلسلے میں بلکہ ایسے دوسرے معمولی معمولی معاملوں میں بھی داد فریاد کس سے کی جائے جن کے ضمن میں حکومت، مذہب حتیٰ کہ خود معاشرے کی طرف سے بھی بظاہر کوئی پابندی نہیں لیکن معاشرے کے ’’غیر تحریری قوانین‘‘ کی خلاف ورزی کسی صورت میں برداشت نہیں کی جاتی؟
فون کی گھنٹی پھر بج رہی تھی، میں نے وارڈ روب میں سے تولیہ نکالا اور غسل خانے میں داخل ہوتے ہوئے بیٹے کو آوازدی’’یار!جس کسی کا بھی فون ہو اسے بتادینا میں شیو کررہا ہوں فکر کی کوئی بات نہیں‘‘۔(قند مکرر)

تازہ ترین