• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ پنجاب کو ہمیشہ چھوٹے صوبوں کی زبوں حالی کا ذمہ دار سمجھا جاتا رہا ہے۔ ا ِس حقیقت کو ہمیشہ نظر انداز کردیا گیاکہ خود پنجاب کے باسیوں کی اِستحصال زدہ اکثریت بتدریج ایک بڑی مزاحمتی قوّت میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، اور یہ بھی کہ طاقتورخاندانی سیاست دان، ماضی کے آمروں کی ہم خیال بیوروکریسی اور بااثر جاگیرداروں پر مشتمل پنجاب کا مٹھی بھر ِاِستحصالی طبقہ مستقبل میں اس نئی مزاحمتی قوّت کا واحد اور مستقل ہدف بن سکتا ہے۔ اِس طبقے کو ہمارے ہاں عموماً ’اسٹیبلشمنٹ ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تجزیات غلط ثابت ہوسکتے ہیں لیکن حالیہ دور بظاہر استحصالی پنجاب اور مزاحمتی پنجاب کے درمیان ابتدائی لڑائیوں کا دور ہے ! کش مکش اِس لمحے بھی جاری ہے بلکہ یہ صورتحال اب ملک کی سیاست پربراہ راست اثر انداز ہونے والا سب سے بڑا عنصر بن چکی ہے ! سچ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں مسلسل شدّت اختیار کرنے والی یہ رَسّہ کشی گزشتہ ستّر برسوں پر محیط سیاسی ارتقا ء کے تحت رونما ہونے والی سب سے ناگزیرتبدیلی ہے ! ہوسکتا ہے کہ اگلے کئی برس تک ملک کے بیشتر سیاسی معاملات، ایک ہی صوبے سے تعلق رکھنے والے اِنہی دو طبقات کے درمیان جاری کشمکش کے تناظر میں ہی طے پاتے رہیں۔
پنجاب ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں قیام پاکستان سے اب تک اَن گنت مقامات صحرا سے ہریالی میں تبدیل ہوگئے، دیہاتوں نے نیم شہری علاقوں کی صورت اختیار کرلی، قصبے شہروں میںتبدیل ہوگئے اور شہر وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔ان بڑے شہروں کے خدوخال معاشی سرگرمیوں میں مستقل اضافے کے سبب جدید طرز پر استوار ہوتے رہے۔ تجارت، ٹیکنالوجی اور ابلاغ عام کی صوبہ پنجاب میں ہمیشہ سے بہتر صورتحال کے باعث عام سطح پر تعلیم، اظہار خیال اور حق خود ارادیت کی اہمیت کو سمجھا جانے لگا۔ یوں صوبے کے خواندہ اور نیم خواندہ محنت کش اور ہنر مند نچلے اور نچلے متوسط طبقات بنیادی شعور اور آگہی کی نعمتوں سے فیضیاب ہوئے۔ اِن تمام تر تبدیلیوں کے طفیل صوبے میں متوسط طبقہ ایک طویل ارتقائی عمل کے تحت پروان چڑھتا ہوا ملک پر طاری نظریاتی جمود پر اب ایک کاری ضرب بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
دنیا کو علم ہے کہ نواز شریف جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاست میں آئے تھے۔ وہ آج بھی کوئی انقلابی نہیں۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ پنجاب میں ابھرتے ہوئے اِس مذاحمتی طبقے کے صحیح یا حقیقی رہنما ہیں۔ البتہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ تصادم کے اس ابتدائی دور میں اِس ابھرتی ہوئی قوت کے پہلے رہنما ہیں۔ ہوسکتاہے کہ یہ نیا متحرک طبقہ صوبے بھر میں مقبولیت پاکر ایک نئی اور بہتر سیاسی قیادت کو جنم دے، لیکن فی الحال یہ طبقہ نواز شریف ہی کے پیچھے ہے۔
تبدیلی کے اِ س عمل میں جنم لینے والا بڑا المیہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب اب اکیلا ملک بھر کی سیاست کا مرکزاور منبع بن گیا ہے۔ اس صورتحا ل میں ملک کے تین چھوٹے صوبے مرکزی معاملات سے لاتعلق ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اِن صوبوں کی انتظامی اور سیاسی قیادتیں صرف نواز اور عمران کے درمیان جاری معرکے سے کوئی سبق حاصل کرنے کے انتظار میں، بظاہر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہیں۔ چھوٹے صوبوں کے سیاست دان اور نمائندے عموماً ً بیانات داغ کر خود کو مرکزی دھارے میں لانے کی مبہم کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔
نواز شریف اور عمران خان دونوں کا تعلق بنیادی طور پر پنجاب سے ہے۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے بہت سے معروف خاندانوں کی طرح میا ں نواز شریف کا پس منظر بھی کشمیرسے جڑا ہے۔ البتہ وہ خالصتاً لاہوری سمجھے اور کہلائے جاتے ہیں۔ عمران خان نسلی طور پرشمال مغربی پنجاب میں واقع میانوالی کے نیازی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی مادری زبان پنجابی ہے اور ان کے ننھیال کا تعلق مشرقی پنجاب کے ایک معزز گھرانے سے ہے۔
دوسری جانب نواز شریف کے زیاد ہ تر ووٹرز کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے۔ ایک انداز ے کے مطابق مسلم لیگ نون کے ووٹرز کی زیادہ تر تعداد پنجاب کے شہری اور نیم شہری علاقوں میں بسنے والے متوسط، نچلے متوسط، محنت کش اور کسان طبقوں پر مشتمل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بحیثیت وزیر اعظم وہ ہندوستان اور ہندوئوں کو پاکستان کا دشمن نہیں سمجھتے، وہ انتہا پسندوں کو پسند نہیں کرتے اور شاید پاکستان کو بھی ایک لبرل ملک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سیاسی امور پروہ کسی کی ہدایت یامشورے پر نہیں چلنا چاہتے ؛ وہ بنیادی طور پر صنعت کار ہیں اس لئے وہ دہشت گردی اوراَمن تباہ کرنے والے دیگرعناصر کا عرصہ حیات تنگ کردینے پر کامل یقین رکھتے ہیں۔وہ بھارت اور افغانستان سمیت تمام پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ؛ گوادر پور ٹ کے مستقبل سے پر اُمید ہیں اور ملک میں صنعتوں کے ساتھ ساتھ، سڑکوں کا جال بچھانے میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان ہندوستان سے بہتر تعلقات کی خواہش رکھنے کے باجود اس پر زور نہیں دیتے، وہ ’ امن کی آشا‘ جیسی مہمات کے بھی مخالف رہے ہیں ؛ پنجاب کے علاوہ خیبر پختون خوامیں بھی اِن کے لاکھوں ووٹرز بستے ہیں، ان کے خیالات پاکستان کو روایتی انداز میں چلانے والے حلقوں کے خیالات سے ملتے جلتے ہیںاور یہ حلقہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود ہندو اور ہندوستان دشمن عناصر کی کھل عام حمایت کرتاہے۔ یہ حلقہ پر تشد د مزاحمت پر یقین رکھتا ہے، عمران خان انتہا پسند تنظیموں اور خاص رہنمائوں کی کبھی مذمت نہیں کرتے!اِن کانظریاتی تانا بانا سرد جنگ کے دوران افغانستان میں سوویت افواج کے خلا ف لڑنے والے،پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے والوں سے ملتا ہے۔ماضی میں وہ بارہاجدید عدالتی نظام کے مقابلے میں روایتی جرگے کو فوقیت دیتے رہے ہیں!
مجھے اس بات کا یقین ہے کہ عمران خان کسی طور کسی مالی اسکینڈل میں سوچ سمجھ کر بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث نہیں رہے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو بڑے بڑے بدعنوان افراد بلوں میں گھس جائیں گے۔ البتہ وہ اپنے مذکورہ خیالات، عمل اور نظریات کی بنیاد پر پنجاب کے استحصالی طبقے کے بہت نزدیک کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس سے زیادہ عجیب بات یہ کہ ضیاءالحق کی انگلی پکڑ کر سیاست میں قدم رکھنے والے میاں صاحب اپنے خیالات اور سوچ کے اعتبار سے پنجاب کے اس نومولود مزاحمتی طبقے کے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تمام کا تمام تجزیہ غلط ہو، لیکن دھرنے کے دوران تھرڈ امپائر کے انگلی اٹھانے والی بات سے لیکر اسلام آباد سے لاہور تک نواز شریف کے حالیہ سفر کے بہت سے گواہان اس ابتدائی لڑائی کے ناگزیر نتائج کوشاید اچھی طرح بھانپ چکے ہیں۔

تازہ ترین