• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی سپریم کورٹ میں نظرثانی پٹیشن میں 24اہم وجوہات

Todays Print

اسلام آباد (طارق بٹ )28جولائی کا فیصلہ واپس لینے کے لیےبرطرف وزیراعظم نواز شریف کی جانب  سےسپریم کورٹ میں دائر نظر ثانی پٹیشن  میں کم از کم 24وجوہات پیش کی گئی ہیں ، فیصلے کےتحت نواز شریف کوبطوررکن قومی اسمبلی /وزیراعظم کے عہدے سے نااہل قراردیاگیاتھا۔

ایسے پیچیدہ نکات جنھیں پہلے کبھی رپورٹ نہیں کیاگیاتھاانھیں ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے فیصلے کوچیلنج کرتے ہوئے بیان کیاہے ۔نظرثانی پٹیشن میں کہاگیاہےکہ اصولی طور پر منصفانہ سماعت کےبنیادی حق کے مطابق سپیشل بینچ کے تین ججز کو ایسی تحقیقات کی بنیاد پر فیصلہ دینے سےگریزکرنا چاہیے تھاجس کی نگرانی انھوں نے کی اورتحقیقات ایسے لوگوں نے کی جنھیں ججز کی منظوری سے منتخب کیاگیا۔

نمبردو، سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اپیل کے حق کو روکنااسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔حتیٰ کہ یہ مان بھی لیاجائے کہ عدالت کے پاس پانامہ کیس کی سماعت کااختیارہےتو بھی جہاں تک  اثاثے ظاہر نہ کرنے پرنواز شریف کو نااہل قراردینے کاسوال ہے عدالت کواس سے دور رہناچاہیےتھااور معاملے کو الیکشن ٹرابیونل میں جاناچاہیے تھاجہاں کارروائی کے دوران  انھیں شفاف ٹرائل کا حق یقینی طور پرحاصل ہوتا ہے اور اگرفیصلہ ان کے خلاف بھی آتا تو بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق  انھیں  کم از کم ایک بار اپیل کرنے کا حق حاصل ہوتا۔

نمبر تین ، سابق وزیراعظم کو نااہل کرنے کی وجہ کسی بھی آئینی پٹیشن میں شامل نہیں کی گئی اوراسی لیے انھوں نے اس معاملے کی سماعت کے عدالتی اختیار کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔

نمبرچار،20اپریل کے فیصلے کے بعد دو مختلف اورآزاد بنچ بننے چاہیے تھے، جن میں سے ایک اس بات کو یقینی بناتا کہ جے آئی ٹی نے60روز میں تحقیقات مکمل کی ہیں؛ اور دوسرا تحقیقات کے بعدجے آئی ٹی رپورٹ کو وصول کرنےکیلئے اور نواز شریف کی نااہلیت سے متعلق کوئی مناسب فیصلہ دینے کے لیے ہوتا۔

 نمبر پانچ، آئین سپریم کورٹ کو ماتحت عدالت کی کارروائی کی نگرانی کرنے کااختیار نہیں دیتا۔ 

نمبر چھ ، چیف جسٹس سے 5رکنی بینچ کی یہ درخواست کہ20اپریل کے فیصلے کے نفاذکی نگرانی اور قومی احتساب بیورو اوراحتساب عدالت کی کارروائی کی نگرانی  کیلئے کسی جج کو کومنتخب کیاجائے ، یہ سب ایک ساتھ ہی مدعی ، تفتیش کار،پراسیکیوٹر، جج ، جیوری اور آخری اپیل کی عدالت کے اختیار سے تجاوز ہے، یہ پاکستان کے بنیادی  کریمنل جسٹس سسٹم کے لیے اچھا نہیں ہے اور نواز شریف اور ان کے خاندان کے شفاف ٹرائل،برابری ، زندگی ، ضروری طریقہ کاراورانسانیت کی عظمت جیسے بنیادی حقو ق کی خلاف ورزی ہے ۔ حتی کہ علیحدہ اختیارات  کی آئینی اصول کےبھی خلاف ہے جس کااظہار بے شمار عدالتی فیصلو ں میں ہوچکاہے۔

نمبر سات،  سپریم کورٹ کی جانب سےنیب کو ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایات  کی بھی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں لہذا قومی احتساب آرڈیننس کے تحت یہ  چیرمین نیب  اوراحتساب عدالت کے اختیارات استعمال کرنے جیسا ہےاوراختیارات استعمال کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں بلکہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے ۔

نمبر آٹھ،درحقیقت اس طرح  اختیا را ت کا استعمال اختیارات کے تعین کے اصول کی روح کےخلاف ہے، اور یہ آئین کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے لہذا اسے بدلا نہیں جاسکتا اور یہ اعلیٰ عدالتوں کے بے شمار فیصلوں میں نظربھی آتا ہے ۔ اس بنیاد پر نیب کو ہدایات دینا بھی ٹھیک نہیں ہے۔

نمبر نو،سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار تو ہے کہ وہ کسی بھی ایجنسی کوقانون کے مطابق اپناکام کرنےاور ذمہ داری پوری کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے ، لیکن ایساکوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت کسی ایجنسی یا ادارے کے اختیارا ت  یہ خود استعمال کرے۔

نمبردس، نیب کو ریفرنس دائر کرنے سے متعلق حکم دینے کامطلب ی ہہے کہ عدالت نے جے آئی ٹی کیجانب سے اکٹھے کیے گئے  نام نہاد’’ شواہد‘‘ کی صداقت ، سچائی ، پختگی اور قبولیت کوواضح طور پرقبول کرلیاہےیا یہ جے آئی ٹی کے درخواست پر باہمی امداد کیلئے دستیاب ہوگی،لہذاایسے شواہد کو تسلیم کرنا احتساب عدالت کے فیصلے پریقیناََاثرانداز ہوسکتا ہےاس بات سے قطع نظر کہ قانون کی نظر میں شواہد یا ٹرائل کے دوران دفاع میں اٹھائے گئے اعتراضات کی کیا حیثیت ہے ؟

نمبر گیارہ، حتیٰ کہ احتساب عدالت کو یہ حکم دینا کہ ریفرنسز کا فیصلہ چھ ماہ میں کیاجائےبھی نواز شریف کے کیس میں تعصب کو ظاہرکرتاہے۔

نمبر بارہ، روپاایکٹ کے شق 99(1) (f) اور آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت  28جولائی کوسنایاجانے والافیصلہ نواز شریف کے وکیل کے اس اعتراف پر مبنی ہے کہ کیپٹل ایف زیڈ ای  میں ان کی ملازمت اور تنخواہ پہلے بتائی جاچکی ہے اگرچہ انھوں نے اپنی تنخواہ کبھی وصول نہیں کی ۔ 

لیکن جیسا کہ سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کااعتراف صرف اس وقت اس کے خلاف ہوگاجب یہ مکمل طور پر ہوگااگرکچھ حصوں کونظر انداز کرنا اور کچھ کااعتراف کرنا اس کے خلاف نہیں ہوگا۔ نمبر تیرہ،   باقاعدہ  ٹرائل اور نواز شریف کوالزامات کاجواب دینےکا مکمل موقع دیئے بغیر آرٹیکل 62 (1)(f) پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا،مزید برآں  الیکشن ٹرابیونل کی جانب سے ان کےخلاف فیصلہ آنے کی صورت میں اپیل کاحق ملتا ہے ،لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے میں اختیارات کا استعمال نہ صرف نواز شریف کے شفاف ٹرائل کےبنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ  انھیں کم از کم ایک بار اپیل کے حق کی بھی ممانعت ہے۔ نمبر چودہ،  ایکرول میتھڈ کے مطابق  غیر وصول شدہ تنخواہ آمدنی کے طور پر اثاثے میں شمار ہوتی ہے ۔تاہم ، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق 12(2) کے مطابق  تنخواہ  وصول شدہ ہی شمار ہوتی ہے نہ کہ وہ جو ابھی وصول کرنی ہے ۔

نمبر پندرہ ، چونکہ آرٹیکل 184(3)کے تحت سنائے گئے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوئی ، اوراثاثہ ظاہر نا کرنے کے الزام کے لیے قانون  روپا ایکٹ کی شق 76A کے تحت ایک فارم فراہم کرتاہے ، اور اس کے تحت ہونے والی کارروائی کے تحت ناصرف شوکاز  کے نوٹس کے ذریعے جواب دینے کا موقع ملتا ہے بلکہ اس کے جواب میں بھی ثبوت فراہم کرکے جواب دیاجاسکتاہے ۔

مزید برآں  الیکشن ٹرابیونل کی جانب سے فیصلہ آنے پر اس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوتاہے، لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے میں اختیارات کا استعمال نہ صرف نواز شریف کے شفاف ٹرائل کےبنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ  انھیں کم از کم ایک بار اپیل کے حق کی بھی ممانعت ہے۔نمبر سولہ، 20اپریل کے کثرت ِ رائے والے فیصلے کے برعکس 28جولائی کافیصلہ خلاف ِ ضابطہ ہے۔

تازہ ترین