• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ ،ٹیکنو کریٹ اور صدارتی طرز حکومت لانے کی سرگوشیاں

Todays Print

اسلام آباد(طاہر خلیل) یہ ہمارے دوست خواجہ سعد رفق کے کان میں کسی نے نہیں کہا بلکہ اسلام آباد کے ایوانوں میں جابجا کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کی باتیں سنی جارہی ہیں اورکہا جارہا ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی طرز حکومت کی تیاری ہے۔

تین روز قبل 14اگست کو70 ویں یو م آزادی کی مرکزی تقریب کے باہر اشرافیہ کی صفوں سے بھی ایسی ہی سرگرشیاں ہورہی تھیں، جس کا بہت واضح جواب صدر ممنون حسین نے قوم سے خطاب میں دیا تھا، گزشتہ برسوں کے مقابلے میں صدر ممنون حسین کا روایتی خطاب نہیں تھا بلکہ اس میں قوم کے لئے اور مخصوص طبقات کیلئے کئی سبق پنہاں تھے اور اسی حوالے سے ممنون حسین پارلیمانی نظام کے بڑے داعی کی حیثیت سے سامنے آئے۔

ایک موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں بعض حلقوں کی جانب سے موجودہ نظام حکومت کی موزد نیت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں، قومی معا ملا ت پر غور و فکر قابل تحسین ہے، اس سے اپنی کمزوریوں پر قابو پاکر آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، صدر نے درست تجزیہ کیا کہ قیام پاکستان سے اب تک ہم مختلف نظاموں کا تجربہ کرچکے ہیں لیکن معاملات میں یکسوئی حاصل نہیں ہوسکی اس لئے ناگزیر ہے کہ جلد بازی میں کسی نئی راہ کا مسافر بننے کی بجائے ماضی کے تجربات کی اچھی طرح چھان پھٹک کرلی جائے اور اگر حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری قوم کا مزاج بنیادی طورپر جمہوری اورپارلیمانی ہے جس پر وہ بارہا اپنے اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔

یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہمارے مزاج سے مطابقت رکھنے والا پارلیمانی نظام پورے طور پر برگ وبار نہ لاسکا اگر اس کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیں تووثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ دستور پاکستان نے مملکت کے نظریاتی تشخص، بنیادی حقوق کے ساتھ اداروں کے درمیا ن اختیارات کی تقسیم واضح کردی، عصر حاضر کے تقاضوں نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کے ساتھ اب میڈیا کو بھی ریاست کے ستون میں شامل کردیا ہے، افسوسناک حقیقت ہے کہ جمہوریت کے نام پرایک عرصے سے جو کھیل تماشے جاری رہیں، اداروں کی بجائے افراد کو مضبوط بنانے کی غیر جمہوری روش، پارلیمنٹ کی بے توقیری اور حقوق انسانی سے گریز نے عوام اور حکمران و بااثر طبقات کے مابین ایسی دیوار کھڑی کردی ہے جو یقیناً جمہوری نظام کے ہر اصول و معیار کی نفی کررہی ہے۔اسی سبب وطن عزیز کو نت نئے چیلنجز کا سامنا ہے ۔

صدر ممنون حسین نے اس طرز عمل کو بدلنے کی بات کی کہ وطن عزیز کو آج جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کے پیش نظر ضروری ہے کہ غیر جذباتی طریقے سے ان مسائل کا جائزہ لے کر ملک میں اعتدال اور معقولیت کو فروغ دیا جائے کیونکہ کشیدگی کے ماحول میں جوش پر ہوش غالب آنا چاہیے، اسی پس منظر میں صدر نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مخاطب ہوکر یہ درد مندانہ اپیل کی کہ وہ اپنی رنجشوں اور گلے شکووں پر قابو پاکر خالصتاً قو می  مفاد میں آئین پاکستان پر متحد ہوجائیں اور اس کی حفاظت و پاسداری کو یقینی بنانے کا عزم نو کریں کیونکہ یہ دستاویز ہمیں ذات سے بلند کرکے قومی مقاصد کی آب یاری کا راستہ دکھائے گی، خوش کن پہلو یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے حالیہ بیانات اس عزم کی عکاسی کرتے ہیں جس میں انہوں نے آئین اور قانون کی بالادستی یقینی بنانے کا اظہار کیا ہے، ان کا یہ عمل قومی امنگوں کے ترجمان کی حیثیت سے وطن عزیز کی ترقی و استحکام کی ضمانت فراہم کرے گا۔

تازہ ترین