• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیاکوئی این آراو ہوسکتاہے....؟ فکرفردا…راجہ اکبر داد خان

پورے پاکستان کی نیک خواہشات سمیٹے سابق وزیراعظم محترم نواز شریف میری گزارشات شائع ہونے تک بخریت لاہور پہنچنے کے قریب ہوںگے۔ یقیناً انہوں براستہ جی ٹی روٹ سفر اختیار کرنے کا فیصلہ کافی سوچ و بچار کے بعد کیا ہوگا۔ مختلف مقامات پہ ان کے خطابات میں جو بھی پیغامات ابھرے۔ وہ ٹریلر کی شکل میں کئی دنوں سے چلائے جارہے تھے۔ تادم تحریک ایک مجموعی تاثر جو پچھلے چند دنوں کے دوران مختلف مواقع پر ان کی گفتگو سے ابھرا ہے۔ وہ کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ اپنے خلاف فیصلہ سے سخت ناراض ہیں اور کبھی اسے اسٹیبلشمنٹ کی سازش اور کبھی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ سازش کہتے ہیں۔ الیکشن، دھاندلی اور کرپشن معاملات پر بحث نے دوسال سے قوم کو کسی نہ کسی انداز میں اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔ آزاد میڈیا نے 2014 کے دھرنوں کے دوران انتخابی دھاندلیوں اور آئین کی شقوں 62,63پر حکومتی غیر آئینی کارروائیوں کو لوگوں کے ذہنوں میں ایک مضبوط انداز میں پیوست کردیا۔ کہ آج ایک ایوریج ووٹر ان دونوں موضوعات پر جامع گفتگو کرسکتا ہے، طاقتوروں کیلئے 62,63 اتنی کارگربن گئیں کہ 23 لوگوں کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا گیا (اکثریت حزب اختلاف والوں کی تھی)۔ بالآختر محترم نواز شریف کو بھی ان میں سے ایک شق لے ڈوبی۔ دونوں شقیں کئی مزید کو بھی ڈبو سکتی ہیں۔ تو کیا ان شقوں کی تراش خراش کی ضرورت ہے یا انہیں کلی طور پر ختم کردیا جائے ؟ اس موضوع پر قومی گفتگو کی ضرورت ہے۔ عجب نہیں کہ چار سال اقتدار کے بعد سابق وزیرا عظم کو بھی آج ان پر اعتراض ہے؟ بھرپور احتجاجوں کی بہتات اور سپریم کورٹ کی براہ راست مداخلت کی وجہ سے کرپشن معاملات سپریم کورٹ میں شنوائی کے لئے پہنچے،اس سطح پہ بھی معاملات کو پہنچنے میں بے شمار عملی دشواریوں کے سامنے کرنے پڑے۔ ٹی آر اوز اور کبھی کمیٹی کمیٹی گمیز کئی ماہ تک چلتی رہیں۔ سابق وزیراعظم نے ان معاملات کو دیکھنے کیلئے خود پہل کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو مدعو کیا۔ پانچ ماہ تک عدالتی کارروائی چلتی رہی۔ جس میں محترم نواز شریف کے خاندان نے اپنا کیس بھرپور اہل طریقہ سے پیش کیا۔ سب کچھ نارمل تھا۔ جے آئی ٹی بنی۔ حکومتی ٹیم نے مٹھائیاں بانٹیں۔ شریف خاندان کئی دیگر کے ہمراہ جے آئی ٹی کے سامنے بھی پیش ہوا اور ان تیرہ سوالوں کے جوابات دیئے۔ (یا نہ دیئے) جو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعہ ان سے پوچھے تھے۔ یہاں اچانک صورتحال بدل جاتی ہے۔ اور جے آئی ٹی پہ تنقید شروع ہوجاتی ہے۔اور جب سے مکمل فیصلہ آیا ہے۔ حکومت اور پارٹی ایک تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں کہ وہ اپنے خلاف اس فیصلہ پہ کس طرح کا رد عمل سامنے لائیں۔ پرانے وقتوں میں محترم نواز شریف کا یوسف رضا گیلانی پہ یہ دبائو کہ انہیں سپریم کورٹ نے گلٹی قرار دے دیا ہے۔ لہٰذا انہیں اپیل کے فیصلہ تک وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اور آج یہ کہنا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف وہ فیصلہ غلط تھا۔ واضح کرتا ہے کہ محترم نواز شریف کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کیلئے مضبوط دلائل موجود نہیں۔ اور اس طرح کی کمزور دلیلوں سے وہ اپنی کوئی خدمت نہیں کررہے۔ ملک کی بھاری اکثریت عدالتی پراسس سے مطمئن نظر آتی ہے۔ اور جو کسی حد تک رنجیدہ ہیں انہوںنے بھی فیصلہ کے متفقہ ہونے اور ایک ٹائم ٹیبل سے جڑے ہونے کی وجہ سے بڑے اعتراض نہیں اٹھائے۔ محترم نواز شریف کا فیصلہ کو دواہم ملکی اداروں اور غیر ملکی عناصر کی سازش کہنا نہایت متنازع پوزیشن ہے۔ جو اپنے ساتھ کئی اہم سوال لپیٹے ہوئے ہے دوسرے طرف بڑے میاں صاحب کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اس کیس میں انصاف کی توقع نہیں ان کی گھبراہٹ کی نشاندہی ہے اور وہ ایک Confrontational Climateپیدا کرکے تمام متعلقین کیلئے ان کے کیسز پہ کام کرنے میں مشکلات پیدا کرتے ہوئے اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی منقسم سیاسی ٹیم کی گفتگو کے بیشتر حصے ایک ہی بیانہ ہیں جس کا لب و لہجہ اداروں پہ رعب اور دبدبہ جمانے والا ہے ۔ جس میں مرکزی پیغام یہ ہے کہ ان کے خلاف تمام معاملات کو موجودہ سطح پہ ہی منجمد کردیا جائے۔ جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ صرف اس دفعہ تمام معاملات کو عدالت عظمیٰ خود دیکھ رہی ہے اور انہیں کسی منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے عدالت نے ایک ٹائم ٹیبل طے کر رکھا ہے۔ ان حالات میں لیگی قیادت کیلئے یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ اپنے خلاف فیصلہ کو عدالتوں میں نمٹتے۔ تمام ادارے حکومت کے ماتحت ہیں۔ حکومت ان کی اپنی ہے۔ اس لئے آج اپنے خلاف چلتے جوڈیشل پراسس پہ عدم اعتماد کرکے میاں صاحب محترم کا خاندان اپنے لئے ہمدردیاں پیدا نہیں کررہا بلکہ سیاسی اور عدالتی معاملات کو سمجھنے والوں کی بڑی تعداد کی ہمدردیوں سے بھی محروم ہورہا ہے۔ آج اس لیگی خاندان کو مزید دوستوں کی ضرورت ہے۔ فیصلہ پہ ان کے موجودہ رویے (ن) کے اندر ہر کسی کیلئے قابل قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بڑا لیگی اس مزاحمتی مارچ کا حامی نہیں اور یہاں سے ہی جماعت میں تقسیم ابھر سکتی ہے۔ہوسکتا ہے کہ تقسیم اتنی گہری نہ ہو۔ جتنی مشرف ٹیک اوور کے وقت ہوئی۔ ساتھ ہی دوسرے رہنماء بھی سیاست میں بنائے ہوئے مقام قائم رکھتے ہوئے ملک کی سیاسی خدمت میں حصے ڈالتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ لیگی قیادت نے سابق وزیرا عظم کا پچھلے چار سال کے دوران بھرپور ساتھ دیا۔ میاں صاحب محترم کی نااہلی کے بعد انہیں اپنے خاندان کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے مزید ناراضگیاں پیدا کرنے سے دور رہنا چاہئے۔ ایسے دوسرے شو آپ کے لئے پریشر پوائنٹس نہیں بن سکتے کیونکہ پیچھے نہ تو کوئی مضبوط سیاسی دلیل ہے اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کی کوئی غیر معقولیت ۔ آپ کو فیصلہ کے خلاف اپنے ریویوکو پریشر پوائنٹ بنانا چاہئے۔ اگر آپ ایک نئے این آراو کے متمنی ہیں اور اسی وجہ سے آپ نے ایسے موقف اپنا رکھے ہیں۔ تو یہ ایک مختلف بال گیم ہے۔ موجودہ حالات میں کیا آپ کے لئے ایسے راستے نکالے جاسکتے ہیں؟ تمام متعلقین کو آن بورڈ ہونا ہوگا۔ جو واضح نہیں ہے۔ آپ بھی یہ کہہ کر کہ آپ کا احترام کیا جائے۔ کوڈڈ الفاظ میں نرمیوں کا مطالبہ کررہے ہیں اور ساتھ ہی لوگوں کو باہر نکال کر اپنی سٹریٹ پاور بھی واضح کررہے ہیں اور الزام تراشیاں بھی جاری ہیں۔ اپ سٹریٹ پاور اور فیصلے نہ مانتے ہوئے اپنے لئے بہتریاں پیدا نہیں کرسکیں گے۔ اداروں سے تعاون اور معاملات کا عدالتی دفاع آپ کے لئے بہترین راستے ہیں۔ جب معاملات عدالت عظمیٰ کے ذریعے چل رہے ہیں۔ تو ان کے انجام تک باوقار خاموشی اور قانونی دفاع ہی بہتر حکمت عملی ہیں۔ جی ٹی مارچ کرکے (ن) والوں نے اپنی کوئی خدمت نہیں کی۔ یہ مارچ نہ تو بحالی جمہوریت کیلئے ہے اور نہ ہی کسی دوسرے بڑے قومی مقصد کیلئے۔ اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی اداروں کو زیر اثر لانے کیلئے مارچ۔ کہ وہ کچھ افراد کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کام نہ کریں۔ اعلیٰ ترین عدالت کی کارروائی میں مداخلت ہے۔ یہ ایک انوکھی نوعیت کا انوکھا مارچ یا احتجاج۔ جس سے لاکھوں افراد کے روزگار بھی متاثر ہوئے۔ جس سے ہزاروں مریض علاج معالجے کیلئے بڑے شہروں میں نہ پہنچ سکے۔ جس سے ٹریفک اور ماحولیات کے غیر معمولی مسائل پیدا ہوئے۔ جس سے صوبہ پنجاب کئی انداز میں متاثر ہوا،اور جس میں کئی قومی وسائل کا بے تحاشہ ضیاع ہوتا نظر آیا ہے۔ یہ ملک ایسی سرکاری تماشہ بینی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اللہ ہم سب کو ملک کو بلیک میل کرنے سے باز رکھے ہیں۔

تازہ ترین