• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غلطیاں کہاں پر ہوئیں....؟ ڈیٹ لائن لندن…آصف ڈار

برطانیہ میں7/7کے خودکش حملوں اور بعد میں دہشت گردی کے بعض واقعات کی وجہ سے انسداد دہشت گردی کے قوانین ایک ایک کرکے سخت ہوتے گئے اور چند ماہ قبل اوپر تلے مانچسٹر اور لندن میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے ان قوانین کے مزید سخت ہونے کا خدشہ ہے۔ اس بارے میں حکومت اور اس کی ایجنسیاں غور و فکر کررہی ہیں۔ اس ملک میں آج دہشت گردی اس قدر بڑا مسئلہ بن گئی ہے کہ حکومت اس کے خلاف قانون سازی کرنے کیلئے انسانی حقوق تک کو معطل کرنے پر تیار ہوچکی ہے۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کے انسانی حقوق کو اب نظر انداز کیا جائے گا اور ان کی شہریت تک ختم کی جارہی ہے۔ شہریت ختم کرنے کے حوالے سے قانون سازی کا آغاز اس وقت ہوا جب عراق اور شام میں داعش کی سپورٹ کیلئے ہزاروں برطانوی باشندوں سمیت یورپ کے دوسرے ممالک کے نوجوان مسلمانوں کا ان ممالک میں روانگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ نوخیز برٹش مسلمان لڑکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ان دونوں ممالک کا رخ کیا جن میں سے بعض جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور بہت سی لڑکیوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق شام اور عراق جانے والی کئی لڑکیوں نے ان ممالک میں داعش کے ہاتھوں اپنے ساتھ ہونے والے برے سلوک کی شکایت بھی کی تھی، مگر چونکہ پانی سر سے گزر چکا تھا اس لیے ان لڑکیوں کی آواز وہاں ہونے والے خودکش حملوں اور گولہ باری کی گن گرج میں ہی کہیں دب کر رہ گئی۔ دونوں ممالک میں جانے والے برطانوی مسلمانوں کے بارے میں یہاں کی حکومت نے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ جب ان کا داعش کے ساتھ رومانس ماند پڑے گا تو یہ واپس برطانیہ کا رخ کریں گے چونکہ یہ داعش کی خلافت دیکھ چکے ہوں گے اور اسی سسٹم کا حصہ بن چکے ہوں گے۔ اس لیے انہیں برطانیہ واپس آکر یہاں کے طور طریقے اور طرز معاشرت ایک آنکھ نہیں بھائے گی۔ سو وہ اس ملک کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ سکتے ہیں اور کمیونٹیز کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس ملک کے حاکموں نے یہ فیصلہ کیا کہ دہشت گردی اور داعش کا ساتھ دینے کیلئے جانے والوں کی شہریت منسوخ کردی جائے قانون کے مطابق اس شخص کی شہریت منسوخ نہیں کی جاسکتی، جس کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ ہو۔ اس شق سے بچنے کا حل یہ نکالا گیا کہ ان افراد کو برطانیہ واپس ہی نہ آنے دیا جائے جو خاص طور پر داعش کا ساتھ دینے کیلئے گئے تھے اب چونکہ عراق اور شام میں داعش اپنی آخری سانسوں پر ہے، اس لیے یقیناً برطانیہ سے وہاں جانے والے ہزاروں افراد واپسی کا سفر شروع کریں گے، مگر حکومت نے اب ان کی شہریت کو منسوخ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ چونکہ وہ اس ملک میں نہیں ہیں اس لیے ان پر یہاں کے قوانین اور انسانی حقوق کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔ ان نوجوانوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں، جن کے والدین نے اپنے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے اور بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے 50-1960اور 1970کی دہائیوں میں برطانیہ ہجرت کی تھی۔ وہ والدین اب یقیناً یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ان سے غلطیاں کہاں پر ہوئیں کہ ان کی اولاد انتہا پسندوں کے نرغے میں آگئی۔

تازہ ترین