• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی نااہلی تحریر:انور لودھی…لندن

جی ٹی روڑ کا ہنگامہ تمام ہوا، "مسافر" منزل پر پہنچ گیا نہ نوازشریف صاحب بحال ہوئے، نہ ہی کوئی متاثر کن پاور شو ہو سکا۔ بظاہر پایا کچھ نہیں صرف کھویا ہی ہے، وقار بھی اور سیاسی اہمیت بھی.. ابھی مزید کھوئیں گے۔ اس جواری کی طرح جو ہارتا ہے تو بس نہیں کرتا اور جیتنے کی خواہش میں مزید لٹاتا ہے، اور جیب میں موجود آخری کوڑی تک وہ ہیجان میں مبتلا رہتا ہے۔پاناما کیس کے فیصلے کے بعد سمجھدار لوگوں نے میاں صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ پاناماا سکینڈل کی تفتیش ہونے تک وہ استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جائیں لیکن "شیر" کب کسی کی سنتا ہے، نہ پہلے کبھی سنی تھی نہ اب تیار ہوا۔ دانیال اور طلال جیسوں پر بھروسہ کر کے وہ عدلیہ پر حملہ آور ہوئےججز اور سپریم کورٹ نے ری ایکشن تو دینا تھاانہوں نے اس کیس کو انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا۔آخر ججز کے وقار اور سپریم کورٹ کی ساکھ کا مسئلہ تھا، اور ادھر عمران خان نے بھی عوامی تحریک اٹھا رکھی تھی جب نیب کے چیئرمین نے شریف فیملی کے خلاف کیسز کھولنے سے انکار کیا اور ایف آئی اے بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی تو سپریم کورٹ کے پاس جے آئی ٹی کے ذریعے تفتیش کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ 28جولائی کے فیصلے کے بعد نواز شریف صاحب کے پاس دو آپشنز تھےکہ فیصلہ قبول کر کے اپنے وکلاء کے ذریعے نظر ثانی کی اپیل دائر کرتے اور نیب میں کیسز لڑتے یا فیصلہ ماننے سے انکار کرتےانہوں نے دوسرا راستہ اپنایاسیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ جی ٹی روڈ ریلی کی سیاسی ٹائمنگ غلط تھی اس کے لیے صحیح وقت اپریل والے فیصلے کے بعد کا تھا لیکن وہ گزر چکا تھا۔جے آئی ٹی گیم چینجر ثابت ہوئی جس نے اہم ثبوتوں کے ذریعے ججز کا کام تو آسان کیا ہی تھا، عوام کا ذہن بھی بدل دیاسیاسی نقصان عدالت میں مقدمے کی سماعت سے ہی شروع ہو چکا تھاپاناما کا مقدمہ جب سے سپریم کورٹ کی دہلیز پر پہنچا تھا اس کو اتنی زیادہ میڈیا کوریج ملی کہ پاکستانیوں کی اکثریت کو شریف فیملی کے بیانات میں تضادات اور قطری خط کی کہانی ازبر ہو چکی تھی جب فیصلہ آیا تو لوگوں نے اسے منصفانہ سمجھ لیااسی "سمجھ" نے انہیں جی ٹی روڑ پر میاں صاحب کے استقبال سے روکے رکھا۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ لاہور تک کے سفر میں میاں صاحب سیاسی گیم ہار چکے ہیں۔شاید یہ اسی فرسٹریشن کا نتیجہ تھا کہ میاں صاحب نے اپنی تقریروں میں براہ راست عدلیہ کو نشانہ بنایا اور مظلومیت کا رونا روتے رہے تاکہ لاہور پہنچتے پہنچتے لوگ بغاوت پر آمادہ ہو جائیں لیکن ایسا نہ ہو سکا نوازشریف کا فیصلے کے بعد کا بیانیہ تضادات سے بھرپور ہے۔ایک طرف وہ آئین اور عوام کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو دوسری سانس میں وہ عدلیہ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ میاں صاحب یہ بھول گئے ہیں کہ جس نظام کے تحت وہ تین دفعہ وزیراعظم بنے اسی آئین کے تحت مقدمات کے حتمی فیصلے کا اختیار عدالت عظمی کو حاصل ہےکیا یہ وہی سپریم کورٹ نہیں تھی جس نے انہیں جدہ سے واپسی پر اس وقت بھی انصاف دیا جن مقدمات میں انہوں نے وقت پر اپیل نہیں کی تھی اسی عدالت سے ماضی میں ان کی حکومت کو بحال کیا گیاپاناما مقدمے میں بھی ججز نے انہیں فراخدلانہ رعایت دی اور منی ٹریل پیش کرنے کے بہت مواقع دیئے لیکن شریف فیملی جعلی کاغذات اور قطری لیٹر کے علاوہ کچھ پیش نہ کر سکی عدالت کو اگرچہ دبئی کی کمپنی سامنے آنے پر فیصلہ نوازشریف کے خلاف سنانا پڑا لیکن کرپشن کے شواہد کے باوجود ججز نے خود فیصلہ کرنے کی بجائے کرپشن ریفرنسز دائر کرنے کے لیے نیب کو حکم جاری کیا تاکہ شریف خاندان اپنے خلاف الزامات کے جواب میں صفائی احتساب عدالتوں میں پیش کر سکے.. نااہلی کے فیصلے کے بعد ایک اور تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ نوازشریف صاحب کو انقلاب کی یاد ستانے لگی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طاہرالقادری نوازشریف کے خلاف انقلاب کا نعرہ لگاتے تھے اب یہ نعرہ میاں صاحب نے چرا لیا ہےیعنی جن کے خلاف سپاہ انقلاب نے انقلاب برپا کرنا تھا انہوں نے خود انقلاب کا پرچم تھام لیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب تین دفعہ وزیراعظم رہے لیکن انقلاب نہ لا سکے اب وہ کس زنبیل سے انقلاب برآمد کریں گے؟۔ میاں صاحب سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی تین درخواستیں دائر کر چکے ہیں۔ قانونی ماہرین کی اکثریت کے خیال میں نظر ثانی کی یہ درخواستیں مسترد ہو جائیں گی۔ ادھر سعد رفیق صاحب نے اعلان کیا ہے کہ میاں صاحب "عوامی رابطہ مہم" جاری رکھیں گے۔ جس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا کہ عدالت پر دباؤ برقرار رکھا جائے تاکہ کم از کم سپریم کورٹ اس ایک درخواست کو منظور کر لے جس میں سپریم کورٹ کے جج کو نیب کیسز کی نگرانی سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔ نوازشریف صاحب اپنی ڈوبتی کشتی کو منجدھار سے نکالنے کے لیے ذرداری صاحب کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں تاکہ دفعہ 62, 63 کو ختم کروا کر پارلیمنٹ میں اپنی واپسی کی راہ ہموار کر سکیں یہ ممکن ہو سکتا ہے لیکن اگر نیب کیسز میں میاں صاحب کو سزا ہو گئی تو 62 , 63 کے چکر سے نکل کر بھی اپنا سیاسی کیریئر نہیں بچا پائیں گے۔

تازہ ترین