• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے ایک بار پھر پیشکش کی ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے چار فریقی مذاکراتی عمل بحا ل کرنے کے حوالے سے اپنا مصالحتی کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت بدھ کو اعلیٰ سول و ملٹری قیادت پر مشتمل نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اپنے دورہ افغانستان کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کیلئے اپنے اصولی موقف پر قائم اور مصالحتی عمل کیلئے پرعزم ہے۔ تاہم افغان حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروپوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے جو سرحد عبور کر کے پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، اجلاس میں ملک کی داخلی وخارجی سلامتی کی صورت حال اور علاقائی اور عالمی تناظر میں خارجہ پالیسی کے تمام ضروری پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا اور بھارتی فورسز کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی، کراس بارڈر فائرنگ اور مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں پر مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کی شدید مذمت کی گئی۔ پاکستان اس وقت جن بیرونی خطرات سے دوچار ہے ان میں مشرقی سرحد پر بھارت اور مغربی سرحد پر افغانستان کی جانب سے بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزیاں اور دہشت گردی کی کارروائیاں سب سے زیادہ توجہ طلب اور موثر جوابی اقدامات کی متقاضی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی لہر کو دبانے کیلئے نہ صرف ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کیلئے افغانستان کی سرزمین کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ افغانستان جیسے چھوٹے اور جنگ زدہ ملک میں اس نے پاکستانی سرحد کے قریبی علاقوں میں ایک اطلاع کے مطابق59قونصل خانے قائم کر رکھے ہیں جو درحقیقت پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنیوالے دہشت گردوں کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کرنے کے اڈے ہیں جو جاسوسی نیٹ ورک کا کام بھی دیتے ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو گرفتاری کے بعد اس حقیقت کا اعتراف کر چکا ہے۔ یہ بھارت کی پشت پناہی اور سازشوں کا نتیجہ ہے کہ کابل حکومت کھل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہو چکی ہے حالانکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ عرصہ تک صدر اشرف غنی پاکستان کے دشمن کو افغانستان کا دشمن اور پاکستان کے دفاع کو افغانستان کا دفاع قرار دیتے رہے۔ پاکستان نے بارڈر مینجمنٹ کا نظریہ پیش کیا تاکہ دہشت گرد سرحد عبور کرکے ایک دوسرے کے علاقے میں نہ جا سکیں مگر کابل حکومت نہ مانی اس پر پاکستان نے یک طرفہ طور پر حساس سرحدپرباڑھ لگانا شروع کر دی وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جہاں بھارت سے مسئلہ جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کے حل کو خطے کے امن اور ترقی کی کلید قرار دیا گیا وہاں افغانستان میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کی کمٹمنٹ جاری رکھنے اور افغان عوام اور حکومت سے ہر سطح پر مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ ایسے وقت میں جب امریکہ اپنی افغان پالیسی میں تبدیلی کی بات کر رہا ہے اور امکان ہے کہ وہ طالبان کےہاتھوں نیٹو افواج کی ہزیمت اور افغان فورسز کی پے در پے شکستوں کے پیش نظر مزید امریکی دستے افغانستان بھیجے گا، پاکستان کو بھی مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کیلئے پیشگی منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ ہم جہاں افغانستان میں امن کیلئے مصالحتی عمل آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں وہاں واشنگٹن نئی دہلی کابل گٹھ جوڑ کے مضمرات پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ ہی نہیں اس کے ساتھ ہمارے تاریخی مذہبی اور ثقافتی رشتے بھی ہیں۔ کابل حکومت کو بھارت اور امریکہ سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں وہ افغانستان میں طاقت کے ذریعے امن نہیں لا سکتے افغانستان میں مستقل امن کے لیے طالبان سے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان، چین اور روس کا کردار زیادہ مؤثر ہے بشرطیکہ امریکہ بھی اس میں شامل ہو جائے۔ کابل حکومت کو ان ملکوں کی مدد سے امن مذاکرات کی پاکستانی کوششوں کا ساتھ دینا چاہئے۔

تازہ ترین