• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے بفضلِ خدا اپنی آزادی کے ستر سال مکمل کر لیے ہیں اور عوام نے غیر معمولی جوش و خروش سے جشن یومِ آزادی منایا ہے۔ بلوچستان جو کئی عشروں سے علیحدگی پسندوں کے نرغے میں تھا، وہاں پورے صوبے میں سبز ہلالی پرچم دیکھنے میں آئے اور ملی نغموں سے فضا گونجتی رہی۔ مسلم لیگ نون کی صوبائی قیادت جس میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، وزیرِ داخلہ جناب سرفراز بگٹی اور حکومت کے ترجمان جناب انوار الحق کاکڑ پیش پیش ہیں، وہ ایسی پالیسیوں پر گامزن ہیں جن کی بدولت وہاں کے عوام اپنے عزیز وطن پاکستان کے ساتھ وارفتگی کے اظہار میں بے پایاں خوشی اور ایک گونہ فخر محسوس کر رہے ہیں۔ وہ اپنی عسکری قیادت کے شانہ بہ شانہ دہشت گردوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ یومِ آزادی سے دو روز پہلے دہشت گردی کی ایک ہولناک واردات میں آٹھ فوجی اور دس سویلین شہید ہوئے۔ وفاقی وزیر داخلہ جناب احسن اقبال اور فوج کے سپہ سالا جنرل قمر جاوید باجوہ کوئٹہ پہنچے، شہیدوں کے ایک ایک خاندان سے تعزیت کی اور پیغام دیا کہ پوری قوم دہشتگردی کا ناسور ختم کرنے میں پوری طرح متحد اور منظم ہے۔ سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض باہمی رشتوں کو مستحکم بنانے میں قابلِ قدر کردار ادا کر رہے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کو ایک بہت بڑا اعزاز حاصل ہوا ہے جس کا ذکر آپ آگے چل کر پڑھیں گے۔
ہمارے دین میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز غرور اور تکبر ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو سزا اُن کے متکبرانہ رویوں کے باعث ملی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کا مشاہدہ جزوی طور پر درست ہو، مگر ہم نے تو انہیں ہمیشہ منکسر المزاج اور متواضع پایا۔ یہ علیحدہ بات کہ ان کا حلقۂ مشاورت حیرت انگیز طور پر سمٹ گیا تھا۔ بے نیازی اِس حد تک بڑھ گئی تھی کہ مہینوں کابینہ کا اجلاس ہوتا نہ قومی سلامتی کونسل کا۔ پارلیمان میں بھی وہ شاذونادر ہی جاتے، لیکن وہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں دن رات جُتے رہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے جبکہ چین پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر ان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ اِس بنا پر پاکستان کی دشمن طاقتوں کے لیے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا ناگزیر ہو گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جن پانچ معزز جج صاحبان نے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف رِٹ پٹیشن کی سماعت کی، اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم ایسا فیصلہ سنائیں گے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا، مگر اُنہوں نے 28جولائی کو جو ’متفقہ‘ فیصلہ صادر کیا، اس پر مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں بڑے تندوتیز تبصرے شائع ہو رہے ہیں۔
جناب نواز شریف اسلام آباد سے لاہور عوام کے جلو میں پہنچے۔ شدید گرمی اور حبس کے باوجود متوسط خاندانوں کے نوجوان مرد اور خواتین رضاکارانہ طور پر نکلے جو اِس امر کا ایک واضح ثبوت ہے کہ جمہوریت میں عوام کی دلچسپی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اِس بیداری میں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نوازشریف جوشِ خطابت میں یہ کہہ گئے کہ ہم ووٹ کا تقدس قائم کرنے کے لیے آئین اور قانون تبدیل کر دیں گے۔ ’تبدیل کرنے‘ کا مفہوم ایک انگریزی معاصر نے ’نیا آئین‘ کے الفاظ میں ادا کیا جو کسی طور درست نہیں۔ دراصل نوازشریف آئین اور قانون میں ترمیم کرنے کی بات کر رہے تھے۔ نیا آئین تو ہمارے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتا ہے اور اِس آن 1973ء کے آئین کا تحفظ ہماری قومی وحدت کے لیے حددرجہ ناگزیر ہے۔ ہمارے ذی احترام صدرِ مملکت نے پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تمام سیاسی قائدین کو آئین پر متفق ہو جانے اور اس کی حفاظت کرنے کی بڑی دانش مندانہ نصیحت کی ہے۔ واہگہ سرحد پر ایشیا کا سب سے بلند سبز ہلالی پرچم بلند کر کے ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اہلِ پاکستان کو نئے جذبوں سے سرشار کر دیا ہے۔ ان کے یہ الفاظ فضا میں تیرتے رہیں گے کہ ہم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے میں پورا پورا تعاون کریں گے۔ یہ ہماری قومی ارتقا کے سنگ ہائے میل ہیں جو ہماری نئی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔
جناب نوازشریف نے اس چار روزہ مارچ میں اپنا آئندہ کا پروگرام بڑی حد تک واضح کر دیا ہے۔ وہ دستور اور قوانین میں ایسی ترامیم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جن سے ووٹ کا تقدس قائم رہے اور کسی وزیراعظم کو پارلیمان کے سوا نکالا نہ جا سکے۔ عوام کو عدالتی، معاشی اور سماجی انصاف میسر آئے اور غریبوں کو سر چھپانے کے لیے کم قیمت پر گھر فراہم کیے جا سکیں۔ اُن پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ یہ بنیادی باتیں انہیں اپنے عہدِ اقتدار میں کیوں یاد نہیں آئیں اور اب ان کی مالا جپنے کا مقصد دوبارہ حصولِ اقتدار ہے۔ اس اعتراض میں بظاہر وزن محسوس ہوتا ہے، مگر اپنی غلطیوں سے باشعور لوگ سبق سیکھتے اور کفارہ ادا کرتے ہیں۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ آزمائش کے وقت بعض اوقات دوررس اور اِنقلاب آفریں فیصلے بھی ہوئے ہیں۔ جناب نوازشریف اس وقت جس ذہنی کیفیت میں ہیں، اس میں خرابیوں کے منبع بند کر دینے اور عوام کی قسمت بدل دینے کا ایک انقلابی پروگرام شروع کیا جا سکتا ہے۔ وہ شدید زخم خوردہ ہونے کے باوجود جوش کے ساتھ ہوش سے کام لے رہے ہیں۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ہم اپنے ترقیاتی ایجنڈے پر مستقل مزاجی سے کام کریں گے اور اپنے قومی اہداف نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے۔ یہ کہہ کر وہ ایک مدبر کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں کہ مجھے اقتدار میں کوئی دلچسپی نہیں، میں تو اپنے عوام کی حالت بدلنا چاہتا ہوں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ہمیں آج نفاق کے بجائے اتفاق کی ضرورت ہے اور ترقیاتی منصوبے سب کے سانجھے ہیں اور ان کی تکمیل میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔
تمام قومی طاقتوں کو یہ احساس کرنا ہو گا کہ منظم سیاسی جماعتیں ہی امورِ مملکت چلا سکتی اور عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بلند کر سکتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نوازشریف اس وقت نہایت قیمتی اثاثہ ہیں کہ ان کی جماعت چاروں صوبوں میں جڑیں رکھتی ہے، انہوں نے چار برسوں میں پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالا اور نوجوانوں کو ایک تابندہ مستقبل کی نوید سنائی ہے۔ عام انتخابات میں صرف دس ماہ باقی رہ گئے ہیں، اس لیے تمام تر کوشش ہونی چاہئے کہ نظام چلتا رہے اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت کو استحکام نصیب ہو۔ تمام باشعور طبقے اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ اداروں کے درمیان توازن قائم رکھنے سے ترقی اور خوشحالی کا عمل بھی جاری رہے گا اور داخلی اور خارجی چیلنجوں کا مقابلہ بھی کیا جا سکے گا۔ مہم جوئی سے مکمل اجتناب ہی ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔
آزمائش کے اس نازک لمحے میں مسلم لیگ نواز نے بلوچستان سے اپنا قائم مقام صدر منتخب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جناب سردار یعقوب خاں ناصر اِس منصب پر فائز ہو کر اپنی جماعت کے اندر چھوٹے صوبوں کے درمیانی طبقوں کو مؤثر بنا سکیں گے۔ اسی طرح اور بھی دور اندیشی پر مبنی فیصلے ہوں گے۔ ہمارے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی جو بڑے قابل اور زیرک سیاست دان ہیں، نہایت اچھے انداز میں امورِ مملکت چلا رہے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہو رہے ہیں اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں نازک معاملات زیرِ بحث آ رہے ہیں، البتہ اُنہوں نے کابینہ میں یک لخت بڑا اضافہ کر دیا ہے۔ اُنہیں تمام وزرائے کرام کو سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے پوری طرح فعال رکھنا ہو گا۔ اُمید ہے وہ اپنی قائدانہ صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے اور جناب نوازشریف کی رہنمائی میں انقلابی پروگرام پر عمل درآمد کریں گے۔
مجھے اس وقت اپنی کم عمری کا ایک شعر یاد آ رہا ہے؎
طلسمِ آرزو کتنا حسیں ہے
ستاروں سے سجی میری جبیں ہے

تازہ ترین