• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدل بےپروا
نوازشریف فیملی نیب میں طلب، سمن جاری، خوشی نہیں کہ ایسابھی ہونا تھا۔ محتاط رہنا چاہئے کہ جب عدالتیں وقت کے امیر کو طلب کرتی تھیں تو مسلم معاشرے میں کوئی ریمارکس نہیں دیئے جاتے تھے، اگرکسی کا جرم ثابت ہو جاتا ہے، سزا ہو جاتی ہے تو اس میں خوشیاں منانے، مٹھائیاں بانٹنے کی ضرورت نہیں البتہ مطمئن ہونے کی ضرورت ہے کہ خدا کا شکر کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، انصاف کی نظر میں سب برابر ہیں، شاہ ہو یا گدا احتساب تو سب کا ہونا چاہئےکہ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں، اگر اس طرح کے واقعات کو ہم معمول کی کارروائی سمجھنا شروع کردیں تو اس ملک میں ایک ایسی مساوات پیدا ہوگی کہ کسی کو یہ پروا ہی نہیں ہوگی کہ ہائے وہ کتنا امیر ہے میں کتنا غریب ہوں، اگر شریف خاندان کو عدالت نے طلب کرلیا ہے توہر شخص عدالت کو بولنے دے، خود عدالت بننے کی کوشش نہ کرے، منتخب بھی ہم کرتے ہیں، برا بھی ہم کہتے ہیں، پھر عدالتیں ہماری جان چھڑاتی ہیں، تو عدلیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے، یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہمارے ہاں قانون سب کیلئے ایک ہونے کا موسم آچکا ہے، اب اگر کوئی بھی ذرا سی ہینکی پھینکی کرے گا تو پہلے بہت سوچے گا یہی سوچ ہی تو قوموں کا سرمایہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے پھول چنتی ہیں یا انگارے، ہم کل کی بات نہیں کرتے، کل کی بات پرانی، آج کی کہانی دلچسپ ہے، مفید عام ہے اور ہمارے لئے ایک اچھا پیغام، اب عدلیہ جس آزادی اور بے خوفی سے عدل کررہی ہے، یہ سلسلہ جاری رہا تو کسی کو انقلاب لانے کا نعرہ بلند کرنے کی ضرورت نہیںرہے گی، قانون کی عملداری سب کچھ اور سب کو درست کردے گی، ہم زمانوں کے بگڑے تگڑے ہیں، ہم نے امیر غریب کی طرح قانون کو بھی امیر غریب سمجھ لیا تھا، زمانے کے اطوار بدلے گئے اور آج محمود و ایاز ایک ہی عدالت میں کھڑے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گالف کلب سے کیوں نکالا؟
آجکل کلچر کا لفظ اتنے معنوں میں زیر استعمال ہے کہ سرے سے ہمارا کلچر ہی کہیں گم ہوگیا ہے کلچر کا ایک یہ استعمال بھی سامنے آیا ہے کہ کم دنیاوی رتبہ رکھنے والا مگر لائق فائق پاکستانی اپنے ہی ملک میں امیروں کے احاطوں میں داخل نہیں ہوسکتا، یہ بھی ایک اشرافیہ کلچر ہے جو عام ہورہا ہے، بڑا دکھ ہوا کہ گالف چیمپینز کو اس لئے گالف کلب اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا گیا کہ ان کا دولتمندوں، دنیا داروں جتنا رتبہ نہیں، عدالت نے جواب طلبی کرلی، انہیں گالف کلب میں داخلہ تو مل جائے گا، لیکن ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا کہیں اور کسی انسانی آبادی میں بھی ایسا ہوتا ہے، اب آپ لاہور کے بڑے کلبوں ہی کو دیکھ لیجئے وہاں کا ممبر بننے اور کسی عام شہری کے داخل ہونے کو اسقدر مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بڑے پائے کا امیر زادہ ہی وہاں کی ممبر شپ حاصل کرسکتا ہے، یہ اشرافیہ کے سارےممنوعہ مقامات عوام کیلئے کھول دینے چاہئیں، اس لئے کہ ہم اپنی آزادی 70بارمنا چکے ہیں، اور غریب کے بال کو ایک بار بھی یہ حق نہیں ملا کہ اس کے ساتھ مختلف نام نہاد اونچی سوسائٹی کے وہ لوگ امتیازی سلوک کریں جن کے بڑوں نے پاکستان بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا، اسلام آباد گالف کلب میں اندرکر کے اب بھی ایک بورڈ پر جلی حروف میں لکھا ہے: نوکر اور نوکرانیوں کو یہاں سے آگے جانے کی اجازت نہیں، ایک زمانہ تھا کہ ہم غلام تھے، انگریزوں کی حکمرانی تھی، بحری جہازوں میں کہیں یہ لکھا ہوا ہوتا تھا "BLACKS AND DOGS ARE NOT ALLOWED" ہمارے گالف چیمپینز جنہوں نے کئی ٹرافیاں لیکر بیرون وطن پاکستان کا نام روشن کیا ان کو اس لئے اسلام آباد گالف کلب انتظامیہ نے داخل ہونے سے روک دیا کہ ان کا تعلق کالے دھن والی اشرافیہ سے نہیں، ہمارے ہاں یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ مقدس گائے کا ہی احترام کرتے ہیں۔ یہ مقدس گائیں (امیر کبیر لوگ) آخرکس بنیاد پر ریاست در ریاست بنا کر عوام پاکستان کو اچھوت سمجھتی ہیں، اور ان کے رکھوالے کسی غریب کے بال کو اندر نہیں جانے دیتے، کب وہ مسادات یہاں بھی نافذ ہوگی جس کا حکم اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیا اور اسے مغرب نے مان لیا، مگر مسلم امہ اور بالخصوص پاکستان میں نہیں ماناگیا۔
٭٭٭٭٭
اب اپنی زبانیں دھو لینی چاہئیں!
ایک کلچر یہ بھی بن گیا ہے کہ جسے چاہو بدمعاش ڈاکو چور جھوٹا حرام خور کہہ دیں، کوئی گرفت نہیں، جیسا کہ ہمیں اپنی زبانوں پر گرفت نہیں جو منہ میں آیا کسی کے خلاف کہہ دیا، اگر ان تمام دشنام طرازوں یعنی ماہرین گالم گلوچ سے یہ پوچھا جائے کہ جو گل افشانی کی اسے قانون کی عدالت میں ثابت کرو تو شاید ہمارے بہت سے افراد سلاخوں کے پیچھے اپنی زبان کی کمائی بھگتیں، اس گالی کلچر کو عام کرنے میں ہمارے سیاسی لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے، یہی لوگ ہمارے حکمران بھی بنتے ہیں اور جمہوریت کی چھتری تان کر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں، ظاہر ہے برائی اوپر سے نیچے کو تیزی سے آتی ہے یہی وجہ ہے کہ پوری قوم اب سر عام وہ الفاظ ادا کرتے کوئی شرم تک محسوس نہیں کرتی اور سننے والے بھی یہ سوچتے ہیں کہ وہ کیوں پیچھے رہیں اور زیادہ بڑے حجم کی گالی داغ دیتے ہیں، آخر یہ گالم گلوچ توپیں کب خاموش ہوں گی، جن گھروں میں والد بھی آغاز کلام گالی سے کرتے ہیں بھلا وہ اپنے بچوں کو کیونکر روک سکتے ہیں، اسی طرح نام بگاڑنا بھی ہمارا کلچر ہے، جبکہ قرآن حکیم نے صاف کہا:’’نام نہ بگاڑو‘‘ اعلیٰ افسران کی بیویاں، بچے عام لوگوں کی بیویوں بچوں سے دور رہنے اور ایک فرعونیت کے ساتھ تقاریب میں شریک ہوتے ہیں، آخر یہ رعونت یہ تکبر ہم کس کو دکھاتے ہیں اور آزادوں کو غلام بنانے کی غلیظ حرکت کرتے ہیں، تین دہائیاں پہلے یہ کلچر نہیں تھا مگر نہ جانے کیا ہوا کہ لقمہ حرام نے اپنی کرامات دکھانا شروع کردیں، ابھی حال ہی میں کس نے زیادہ گالیاں دیں کی بنیاد پر کتنے ہی وزیر بنا دیئے گئے، اور اب ان کا بوجھ بھی غریبوں پر پڑے گا کہ ٹیکس تو غریب عوام کو دینا ہے، خدارا ہم سب اپنی زبانوں کو غسل دیں اور غلط نوازی سے پرہیز کریں۔
٭٭٭٭٭
فقط علم، صلاحیت تقویٰ کو فضیلت بنائیں
٭....ملکہ الزبتھ کا تخت سے دستبرداری کا فیصلہ تاج شہزادہ چارلس کے سر پر سجے گا،
برطانیہ واحد ملک ہے کہاں بادشاہی اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتی ہے، ہم سمجھتےہیں کہ وہ ٹرین صرف ہمارے ہاں ہے جس کا اوپر والا حصہ پشاور جارہا ہے نیچے والا کراچی، ایک شخص کو بہت خوش پایا پوچھا کیا ہوا کہنے لگا اب برطانیہ کے امیگریشن قوانین نرم ہو جائیں گے۔
٭....زرداری: نوازشریف سے کوئی رابطہ ہی نہیں رکھنا چاہتے تو ڈائیلاگ کیسا؟
قبلہ اجازت ہو تو آپ کے بیان کو الٹا کر کے پڑھ لیں؟
٭....اگر الیکٹرونک میڈیا نہ ہوتا تو....
تو خیر و شر میں تمیز بہت مشکل ہو جاتی۔
٭....وزیراعظم:قومی معیشت کے اشارے مستحکم ہیں،
قومی معیشت کب تک اشاروں سے کام لے گی؟
٭....صفائی نصف ایمان ہے، آئو سب ملکر ملک کو صاف کریں، اگر آدھا ایمان اس طرح مل جائے تو باقی آدھا بھی غربت مٹانے کی مہم چلا کر حاصل کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین