• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سیاستدان جس کے خلاف مقدمات بنتے ہیں وہ عدالتوںکے ساتھ ساتھ عوامی عدالت میں بھی اپنا کیس لڑتے ہیں۔ عدالتوں میں بات قانون اور ضابطے کی ہوتی ہے جبکہ عوامی عدالت میں لوگوں سے فیصلہ لیا جاتا ہے۔ عوام کی سب سے بڑی عدالت اس وقت سجتی ہے جب انتخابات ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کوعدالت نے سزائے موت کی سزا دی اور انہیں بعد میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ یہ تھا عدالتی فیصلہ مگر عوام کی عدالت میں وہ ہمیشہ سرخرو ہوئے اور ان کی وفات کی کئی دہائیوں کے بعد بھی پیپلزپارٹی انتخابات جیتتی رہی اور حکومتیں بناتی رہی ہے۔ اب بھی سندھ میں پیپلزپارٹی مقبول ترین جماعت صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی قربانی کی وجہ سے ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نوازشریف کو نااہل تو قرار دے دیا اور ان پر کوئی بھی پبلک یا سیاسی عہدہ رکھنے پر پابندی لگا دی مگر عوام کی عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے جس کا سب سے بڑا اظہار اگلے انتخابات میں ہوگا۔ اس کے بڑے بڑے اشارے ان کے حالیہ جی ٹی روڈ پر ہونے والے اجتماعات میں نظر آئے جب انہوں نے اسلام آباد سے لاہور کا سفر کیا۔ جوں جوں وہ اپنی کمپین جاری رکھیں گے سب کے سامنے عوامی عدالت کا فیصلہ آتا رہے گا۔ نوازشریف کی نااہلی نے انہیں وزیراعظم کے عہدے سے تو محروم کر دیا مگر عوام میں ان کی مقبولیت بڑھ گئی اور یہی ان کے مخالفین کے لئے سب سے بڑا خوف اور چیلنج ہے کیونکہ وہ تو انہیں ’’سیاسی موت‘‘ مارنا چاہتے تھے مگر قصہ الٹ ہو گیا ہے۔ ان کی پریشانیاں اس وقت مزید بڑھتی ہیں جب ن لیگ مکمل طور پر ’’ان ٹکٹ ‘‘ہے اور اس میں کوئی بھگدڑ نہیں مچی۔
مختلف ادوار میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری پر بھی بہت سے مقدمات بنے جن کو وہ بھگتے رہے مگر وہ ہمیشہ ’’عوامی عدالت‘‘ میں بھی اپنا کیس پیش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ عدالتوں کو کینگرو کورٹس بھی کہتے رہے مگر اس کے باوجود وہ ان کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ اس وقت بھی کچھ مقدمات آصف زرداری کے خلاف چل رہے ہیں۔ نہ صرف ان کا بلکہ ان کی پارٹی کے تمام رہنمائوں کا ہمیشہ سے یہ کہنا ہے کہ ان کا احتساب نہیں استحصال ہو رہاہے۔ سیاستدان اپنے خلاف بننے والے مقدمات کے بارے میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دوسروں کو ایسے بیانات دینے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ پہلے ن لیگ والے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بارے میں ایسا الزام لگاتے رہے اور اب پیپلز پارٹی ایسا کر رہی ہے۔ یہ سیاست ہے۔ ہماری تاریخ میں اکثر یہ ہوا ہے کہ جب بھی بہت سے وزرائے اعظم کی چھٹی کی گئی تو وہ خاموشی سے گھر جابیٹھے شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ ہی ان کی جماعت اور نہ ہی وہ خود عوام میں مقبول تھے۔ ان کو نکالنے والوں کے لئے یہ بات بڑی باعث اطمینان تھی کہ ان کے ’’وکٹم ‘‘اس قابل نہیں ہیں کہ ہلکا سا بھی احتجاج کر سکیں۔ تاہم جو سیاستدان بھی عوام میں مقبول رہے ہیں وہ ہمیشہ مختلف طریقوں سے برطرف کئے جانے کے خلاف صدائے احتجاج بڑے بھر پور انداز میں بلند کرتے رہے ہیں۔ ایسا ہی بے نظیر بھٹو کرتی رہیں اور نوازشریف بھی بالکل اس طرح ہی کر رہے ہیں۔
اپنی عوامی مہم کو جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ ساتھ نوازشریف نے عدالت عظمیٰ میں اس کے 28جولائی کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کر دی ہے۔ عام خیال یہ کیا جاتا ہے کہ بہت ہی کم امکان ہے کہ ریویو پٹیشن میں عدالت اپنے اصل فیصلے کو یکسر تبدیل کردے اگرچہ اس کی مثالیں موجود ہیں جس میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلوں کو مکمل طور پر چینج کر دیا۔ سابق وزیراعظم نے عدالتی محاذ پر بھی اپنے تمام آپشنز کو سامنا رکھا ہے بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے سامنے نہ صرف خود بلکہ ان کا سارا خاندان اپنا مقدمہ لڑتا رہا باوجود اس کے کہ انہیں نہ صرف معلوم بلکہ یقین تھا کہ ان کے خلاف کیا ہونے جارہاہے۔ اب شاید انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ انہیں بہت سے قانونی نکات بشمول عدالت عظمیٰ کے اختیار سماعت کو پہلے ہی اٹھانا چاہئے تھا مگر وہ تو بقول ایڈوکیٹ عاصمہ جہانگیر کے عدالت کے سامنے ہاتھ بندھے کھڑے رہے۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے بہت سے اہم آئینی اور قانونی نکات ریویو پٹیشن میں اٹھائے ہیں جن کو رد کرنے کے لئے بڑے ٹھوس دلائل چاہئیں۔ مثلاً ان کا موقف ہے کہ ’’ایسٹ‘‘(اثاثہ)کی تعر یف جو بلیکس لاء ڈکشنری سے لے کر نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا ہے وہ اس ڈکشنری کے کسی بھی ایڈیشن میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ان جیسے قابل اور سنجیدہ وکیل سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس طرح کی دلیل بغیر تحقیق کے نظر ثانی درخواست میں لکھ دیں۔ سابق وزیراعظم کی نااہلی صرف اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ انہوں نے قابل وصول تنخواہ اپنے بیٹے کی کمپنی سے نہیں لی اور یہ نہ لی گئی قابل وصول تنخواہ ان کا ’’اثاثہ‘‘ تھی جو انہوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں داخل کئے گئے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔ خواجہ حارث کا موقف ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنے فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ اپیل کا حق نہ ہونا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ موجودہ فیصلے کے خلاف نوازشریف کو اپیل کا حق نہیں ہے۔
یقیناً نوازشریف کی نااہلی اور نیب میں ہونے والی ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف کارروائی نے ان کے لئے بہت بڑی مشکل اور پریشانی پیدا کی ہے اگرچہ ان کی جماعت کو کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوا ہے۔ اس مشکل وقت میں ان کا ہر مخالف ان پر حملے کر رہاہے اور ہماری سیاست میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہر کسی کی کوشش اور خواہش ہے کہ سابق وزیراعظم کو مزید دباکر سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ آصف زرداری نے جو نعرہ بلند کیا ہے کہ وہ نہ تو نوازشریف سے رابطے میں ہیں اور نہ ہی رابطہ رکھنا چاہتے ہیں اور وہ ان کے مجوزہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا حصہ بھی نہیں بنیں گے۔ انہیں ڈر ہے کہ انہوں نے اگر اس وقت نوازشریف سے ہینڈ شیک کیا تو ان کی جماعت کو پنجاب میں مزید نقصان ہو جائے گا جبکہ وہ پہلے ہی بہت بری حالت میں ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ اقتدار میں 5سال ہوتے ہوئے آصف زرداری کا ’’مفاہمت‘‘ کا نعرہ صرف اپنی حکومت کو بچانا تھا اور یہ بالکل جینوئن نہیں تھا۔ ان کے بعض حمایتی تو انہیں ’’شہنشاہ مفاہمت‘‘ بھی کہتے رہے جو کہ ظاہر ہے ایک دھوکہ تھا۔ سابق صدر کا خیال ہے کہ یہ وقت ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی میں جان ڈالی جاسکے۔ نوازشریف کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اقتدار میں ہوتے ہوئے ایسے نیشنل ڈائیلاگ اور نئے عمرانی معاہدے کی بات کرتے اور اس کو آگے بڑھاتے۔ وزرائے اعظم کے ساتھ تو ظلم پچھلے 70سال سے ہو رہا ہے۔ سابق وزیراعظم کو حکومت میں ہوتے ہوئے ہی اس مسئلے پر بھی دوسری جماعتوں سے مشورے کے ساتھ کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے تھا تاکہ ووٹ کے تقدس کو بار بار مختلف طریقوں سے پامال نہ کیا جائے۔ تاہم وہ اب بھی یہ بات کر کے مستقبل کے لئے ایسی کوششوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے عوام کی رائے کے ساتھ بار بار کھیلا جائے اور وزرائے اعظم کی چھٹی کرائی جائے۔ ضروری نہیں ہے کہ آصف زرداری نے جو اس وقت ’’کُٹی‘‘ کی ہے وہ آئندہ بھی جاری رہے وہ یقیناً اسے ختم کردیں گے جب انہیں یقین ہو گا کہ انہیں سیاسی فائدہ ہو گا۔ سیاست امکانات کا نام ہے۔

تازہ ترین